https://www.newnewsandstory.online/?m=1 اردو مثنوی سحر البیان پر ایک نظر

اردو مثنوی سحر البیان پر ایک نظر


مثنوی
مثنوی سحر البیان 
سوال : میر حسن سحر البیان میں معاشرت کی عکاسی کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں؟

جواب


سحر البیان اردو کی ان زندہ جاوید مثنویوں میں سے ہے جو ہر زمانہ میں عوام اور خواص دونوں


میں یکساں طور پر مقبول رہی ہے۔ اس مثنوی کو زندہ و جاوید بنانے میں جہاں اور بہت سی خصوصیات


حصہ لے رہی ہیں وہاں اس کی نمایاں تر خصوصیت تہذیب و معاشرت کی عکاسی ہے۔


 مثنوی میں چونکہ جزئیات نگاری کی بہت گنجائش ہوا کرتی ہے اس لئے مثنوی نگار کا مشاہدہ بہت گہرا اور تیز تر ہونا چاہئے کیونکہ جب کوئی داستان بیان کرے گا تو وہ لازمی طور پر کسی معاشرت عہد تہذیب ،اور کسی ثقافتی دور سے مربوط ہو گی ۔ مثنوی نگار جب تک متعلقہ تمام کوائف سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہو گا تو نہ تو معاشرے کی صحیح تصویر پیش کر سکے گا اور نہ ایسے کردار تخلیق کر سکے گا جو اس تہذیب اور دور سے


معاشرے کے چوکھٹے میں جڑے ہوئے چلتے پھرتے اور بولتے نظر آئیں۔ 

اس کے ساتھ ساتھ مثنوی نگار کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ تلمیحات استعارات اور تشبیبات پر مکمل عبور رکھتا ہو تاکہ وہ معاشرت کی تصویر کشی میں ابلاغ کے پورے ذرائع بروئے کار لا سکے۔


میر حسن نے معاشرے کی جس طرح تصویر کشی کی وہ نواباں اودھ اور لکھنو سے متعلق ہے۔ میر حسن نے سحر البیان آصف الدولہ کے دور میں لکھی تھی۔ چنانچہ اس میں ہر مقام پر دربار کا رنگ


محلات شاہی کی تصویر قمقے، رونق و رنگ نظر آتی ہے۔ جو ان درباروں میں رہا کرتی تھی۔ چونکہ اس وقت رعایا خوشحال تھی اس لئے معاشرے میں ہر وہ رویہ موجود ہے جو اس قسم کے عیش پسندانہ اور فارغ البالی معاشرے میں جنم لے سکتی ہے۔ چنانچہ وہاں اکثر اوقات تقاریب اور میلےٹھیلے منعقد ہوتے رہتے تھے۔

 وڈیرے طوائفیں اس کے علاوہ شوخ و شنگ اور چست و چالاک ناچنے والیاں ہر وقت درباروں میں موجود رہتی تھیں ۔ لوگ موسیقی کے رسیا اور ٹھمریوں کے بولوں کے شیدائی تھے۔ اس کے علاوہ حکمران بھی اس قسم کے مشاغل کے شائق تھے۔ نجوم کے قائل داستان طرازی اور داستان گوئی کی طرف مائل تھے۔ عالی شان عمارتیں بنوانے اور خوبصورت باغ لگوانے کا بہت شوق تھا۔ اس کے علاوہ شہزادیاں نام ونعم سے پلی ہوئیں۔ ان کے ساتھ محلات کی کنیزیں اور خواصیں جن کے نام سن کر 

بقول عابدی عاید :

:


"آنکھوں میں نور آئے اور دل میں سرور آئے ۔"


اس معاشرے کا جزو لانیفک تھیں۔


بقول ڈاکٹر سید محمد طفیل :

”اردو مثنوی کا ارتقاء


تہذیب کا یہ تکلفاتی ڈھانچہ جسے نوابیں اودھ نے کھڑا کیا تھا لکھنو کے ماحول اور ادب پر چھایا ہوا تھا ۔


یہی وہ معاشرہ تھا جس کی تصویر میر حسن نے کھنچی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان کو کھینچے ہوئے میر حسن کو بہت شوخ رنگ یا زیادہ خطوط استعمال نہیں کرنے پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مقامات پر میر حسن نے صرف ایک ہی شعر کہہ کر کسی معاشرتی پہلو کی ثقافتی کیفیت تمدنی خصوصیت کی تصویر کھینچ دی ہے۔ مثلا ان دو شعروں میں ناچنے گانے والیوں کا ذکر اس انداز میں کیا کہ دونوں شعر ضرب المثل بن گئے۔


دکھانا کبھی اپنی چھب مسکرا کر


کبھی اپنی انگیا کر لینا چھپا


دوپٹے کو کرنا کبھی منہ کی اوٹ


کہ پردے میں ہو جائے دل لوٹ پوٹ


بقول سید احتشام حسین سحر البیان پر ایک نظر


یہ قصہ اس اونچی سطح کے لوگوں کا ذکر ہمارے سامنے لاتا ہے جس میں کوئی کسی درباری شاعر کو نظر ہی نہ آسکتا تھا۔ اس لئے سحر البیان میں صرف اس ماحول کا پتہ

چلتا ہے جو دربار یا دربار کے گرد و پیش میں پایا جاتا تھا۔


مثنوی سحر البیان میں درباری زندگی کے ہر پہلو کی بھر پور اور جاندار عکاسی کی گئی ہے۔


بقول عبد السلام شہر الہند


اس میں تاج رنگ کے چلسے گانے بجانے کے ٹھاٹھ شاہانہ محفلوں کی آرائش باغوں اور ہر قسم کے محافل کے سمے دکانوں کی آرائش شاہانہ لباس اور جواہرات کا

بیان بالکل ہندوستانی طرز کے موافق کیا۔


معاشرتی رسوم و رواج


جہاں تک مثنوی کی ہیئت اور ترتیب کا تعلق ہے سحر البیان میں فارسی مثنویوں کا قصہ تتبع ہے۔

 فارسی مثنویوں کی طرح ہر نئے بیان کا عنوان ہے۔ افراد قصد کے نام بھی ایرانی ہیں لیکن ان کا انداز زندگی و طرز معاشرت آداب اور کردار و گفتار مقامی اطوار و عادات اور مقامی ماحول سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندوستان اور خاص طور پر ہندوستان کی درباری زندگی کی رسومات کا جائزہ لینا ہے تو مثنوی سحر البیان معاشرت و تمدن کی پوری آئینہ داری کرتی ہے۔ بادشاہ بیٹے کی امید کی منتیں  مانتا ہے۔ نجومی فال نکالتے ہیں اور انعام پاتے ہیں۔ بیٹے کی پیدائش پر خوشی منائی جاتی ہیں۔ خواجوں اور خواصوں کو جوڑے  دیئے جاتے ہیں۔茶 پیروں کو جاگیریں دی جاتی ہیں۔ بقول خان رشید اردو کی تین مثنویاں


میر حسن چھٹی برس گانٹھ، دودھ بڑھانا ،بسم اللہ کی رسم کو نظر انداز نہیں کرتے۔


شادی کا نقشہ


اس طرح بے نظیر کی شادی کے موقع پر میر حسن نے ہندوستانی شادی کی ایک ایک رسم کو بیان کیا ہے۔ بے نظیر کی برات شاہی براتوں کی طرح بڑی شان و شوکت سے نکلتی ہے۔ آتش بازی کی رونق باجوں کا شور برات کا استقبال نکاح کی رسم آرسی مصحف سبھی کچھ بیان کیا ہے۔ ان رسومات سےاس معاشرے کے مزاج کا پتہ چلتا ہے۔


رکھا  مصحف  اور  آرسی  کو  نکال

دھرا  ہے  میں  سر پہ آنچل کو  ڈال 

وہ جلوے کا ہونا  وہ شادی  کی دھوم 

وہ آپس میں ہیں دولہا دلہن کی رسوم

 

پھر اسی منظر میں زربفت کی کرتیاں پہنے ۔۔۔۔۔تیزی اور اہتمام کے ساتھ اپنے کام میں مصروف نظر آتے ہیں۔

ہزاروں ہی اطراف پالکی 

جھلا بور کی جگمگی نا لکی 

کہاروں کی زر بفت کی کرتیاں

وہ  ان  کے دبے پاؤں کی پھرتیاں 


بے نظیر اور بدر منیر کے بیاہ کا عمل بھی دیکھنے کے قابل ہے۔ کہیں عامی کے تخت کہیں پان بیچنے والے بارات کے ساتھ تماشائیوں کی وہ کثرت کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں اور


بقول امداد امام اثر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاشف الحقائق


یہ بیان ایسا ہے کہ جس میں حس بھر بھی مبالغہ یا جھوٹ کا لگاؤ نہیں ہے۔ "

محلات کی کنیزوں اور خواصوں کی تصویر کشی اس تہذیب میں محلات کی زندگی میں کنیزیں اور خواصیں خاص اہمیت رکھتی ہیں ۔

 میر حسن نے ان کی بڑی خوبصورتی سے تصویر کشی کی ہے۔ بظاہر نوکرانیوں کے نام گنوائے ہیں لیکن ان ناموں کے ساتھ ان کی خدمات اور امتیازات کے علاؤہ ان کے 

آقاؤں کی زندگی اور رجحانات پر بھی خاص روشنی پڑتی ہے۔ ان کا نقشہ میر حسن نے یوں کھینچا ہے


کہیں چٹکیاں اور کہیں تالیاں 


کہیں قہقہے اور کہیں گالیاں


ادھر اور ادھر آتی جاتیاں


پھریں اپنے جوبن کو دکھلاتیاں




یہ خواصیں کنیزیں اور لونڈیاں وغیرہ سب کی سب ہندوستانی ہیں اور مقامی رہن سہن کی جھلک پیش کرتی ہیں۔ ان کی پوشاک آداب و اوضاع مغلیہ محلات کے اس معاشرت کی یاد دلاتے ہیں جن میں ایران اور ہندی رنگ مل جل کر ایک ہو گئے تھے۔ میر حسن کے سحر آفرین قلم نے ان مرقعوں کے نقوش ایسی چابک دستی سے نمایاں کئے ہیں کہ ان کی رنگینی اور دلکشی ہمیشہ کیلئے قائم ہو کے رہ گی ہے۔

بقول سید احتشام حسین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سحر البیان پر ایک نظر


  لونڈیوں کی زیادتی اس شاہانہ تمدن کا پتہ دیتی ہے جس میں کام کم اور کام کرنےوالے زیادہ ہوں جس میں فراغت اور فرصت ہو


ہندوستانی موسیقی اور طوائفوں کا ذکر


ہندوستانی موسیقی کی تالوں اور ارباب منشاء کا ذکر جس میں بے نظیر کے پیدا ہونے عیش بائی کے مجرا کرنے اور شادی کی محفل آراستہ ہونے کے موقعوں پر آیا ہے۔ ان موقعوں پر میر حسن نے ہندوستانی طوائفوں رقاصاؤں کے انداز و اطوار کی جو تصویر پیش کی ہے وہ بے مثل ہے۔


خوشی کی زمین ہر طرف تھی بساط


لگے ناچنے اس پر اہل نشاط 


ناری کے جوڑے چمکتے ہوئے 


پاؤں میں گھنگرو  جھنکتے ہوئے


مثنوی میں جن سازوں کا ذکر آیا ہے ان کے استعمال میں ایسی ترتیب اور حسن ہے کہ بقول


خان رشید اردو کی تین مثنویاں:


پڑھتے پڑھتے حروف الفاظ اور مصروں کی صوتی خصوصیات کی وجہ سے کانوں میں ساز کی لے اور آواز محسوس ہونے لگتی ہے۔ جیسے سازندے اپنے سازوں کو ہلا

رہے ہوں۔"


محلات کی سجاوٹ اور شہزادیوں کے لباس کا بیان


اہل لکھنو نے ہر چیز میں اپنی نفاست طبع سے ایک خاص نوک پلک پیدا کی تھی۔ محلات کی

سجاوٹ ساز و سامان اور آرائش کا ذکر ہمیں مثنوی میں بار بار دکھائی دیتا ہے اور اس میں سج دھج کو بیان کرتے وقت میر حسن لکھنوی روایت کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہیں۔


مغرق بچھی مسند ایک جگمگی

کہ تھی چاندنی جس کے قدموں گئی

شہزادیوں کے لباس اور زیورات کی تصویر کشی بھی میر حسن نے خوب کی ہے۔ بدر میر کا 

لباس اور پہنا واقعلہ معلی کی شہزادیوں کا ہے۔ ہندوستان کی آب و ہوا کے پیش نظر یہ لباس عربی و ایرانی لباس کے مقابلے میں نازک تر اور ہلکا پھلکا ہے۔ آپ رواں کی پیشواز جالی کی حباب سی  اوڑھنی اور جواہر نگار باریک کرتی زیوروں میں بازوؤں کے ڈھکے ہوئے نورتن کانوں میں کرن پھول اور نیچے موٹی دولڑے یہ سب سنگار ہندی عورت کی تصویر پیش کرتا ہے۔ 



وہ آنکھوں کا عالم وہ کاجل غضب 

کہے نو بڑی پر گنتان میں شب 


محلات کے باغ کی رنگا رنگی



میر حسن نے ہندوستانی محلات کی شان و شوکت کا ذکر کرتے ہوئے ان باغات کی تصویر کشی بھی کی ہے۔ جو ان محلات میں واقع تھے۔ خاص طور پر بے نظیر اور بدر منیر کے باغات کی مرصع نگاری ایسی واضح جاندار اور دلکش ہے کہ ہم اس کو پڑھتے ہوئے واقعی کسی خوبصورت باغ میں سیر کرتا ہوا محسوس کرتے ہیں ۔

بے نظیر کے باغ میں ایرانی پھل پھول ایک ساتھ بہار دکھاتے ہیں۔ میر حسن نے باغ کی فضا بیان کرتے ہوئے پھول پھل درخت خوشبو روشنی ہوا کا حسین امتزاج تیار کر دیا ہے۔ جس میں پڑھنے والا کھو کر رہ جاتا ہے۔


عجب چاندنی میں گلوں کی بہار 

ہر اک گل سفیدی سے ماہتاب وار


غرضیکہ باغ کا ذکر نہایت دلکش ہے۔ سحر البیان میں لکھنوی معاشرت کی مکمل عکاسی ملتی ہے

اور ہم خود کو ان کے درمیان پاتے ہیں۔ )


بقول حالی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مقدمه شعر و شاعری


جو کچھ اس مثنوی میں بیان کیا ہے آنکھوں

کے سامنے تصویر کھینچ دی ہے۔

Like and share کلاسیکی شاعری"


Thanks............ شکریہ 

Post a Comment

0 Comments