https://www.newnewsandstory.online/?m=1 Allama Iqbal poetry

Allama Iqbal poetry

    اقبال کی فارسی شاعری

Allama Iqbal
Allama Iqbal poetry 
 Question ❓ Answer click here

 اقبال نے اردو میں کوئی چھ ہزار اشعار لکھے

ہیں اور فارسی میں تقریبا نو ہزار۔ اردو میں اقبال نے زیادہ تر قدیم اسلوب اپنایا اور اصناف سخن اور ہیت شعر کے نئے تجربے بہت کم و پیش کیے۔ مگر ان کی فارسی شاعری میں قدیم اصناف سخن کے ساتھ جدید تر شعری تجربے بھی موجود ہیں۔ اقبال کی اردو منظوم کتابوں میں اردو شاعروں کے حوالے سے اور شاعروں  کی تضمین بہت کم ملتی ہے ۔ان کتابوں اور ان سے بھی زیادہ اقبال کی فارسی کتابوں میں کوئی ستر شاعروں کا ذکر رنگا رنگ صورت میں ملتا ہے۔ اقبال نے کبھی کسی شاعر کا مصرع یا شعر تضمین کیا اور کبھی کسی شعر کی تعریف فرمائی یا اس پر انتقاد کیا ۔اتنے شاعروں کا کلام اقبال میں اجتماع علامہ اقبال کے وسعت مطالعہ کی دلیل ہے مگر ایسا نہ سمجھا جائے کہ اقبال ان سب شاعروں سے متاثر تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے دو تین فارسی شاعروں کے اسلوب پر توجہ کی ہے اور دوسرے فارسی شاعروں کے معانی کوانہوں نے کبھی پسند کیا ہے اور کبھی نہ  پسند ۔ان شاعروں میں سے بعض کے نام سے اپ اشنا ہوں گے مثلا فردوسی، ناصر خسرو، مسعود سعد ،سلمان، سنائی ،رومی، سعدی، بو علی قلندر، امیر خسرو ،حافظ، جامی، عرضی ،فیضی، نظیری، کلیم، بیدل، طالب آملی، قدسی فانی اور غالب۔ ان شاعروں میں سے رومی کے ساتھ اقبال کے خاص صوری اور معنوی تعلقات ہیں۔

 اقبال کے خاص فالسفہ کو فالسفہ خودی کہا جاتا ہے۔ اقبال نے 30 سال سے زیادہ عرصے تک اس فالسفے کی نئے نئے اسالیب بیان کے ساتھ ترجمانی کی۔ یہ فالسفہ مکمل صورت میں فارسی میں ہی ملتا ہے ۔اقبال کی پہلی فارسی  کتاب مثنوی اسرار خودی کا موضوع یہی ہے۔ خودی کی طرح بے خودی یعنی قومی خودی کا بھی اقبال نے ایک خاص نظریہ پیش کیا ہے۔ یہ فالسفہ اقبال بھی دوسری فارسی مثنوی رموز بے خودی میں پیش کیا گیا ہے اور علامہ اقبال مرحوم کی کسی دوسری کتاب میں یہ نظریہ اتنی تفعین کے ساتھ نہیں ملتا ہے ۔اقبال نے فارسی کے ایک مشہور صوفی شاعر شیخ محمود شبتری کی خطاب گلشن راز کا جواب مثنوی گلشن راج جدید کی صورت میں دیا اور جرمنی شاعر گوٹے کے دیوان شرقی و غربی کا جواب پیام مشرق میں کلامی کے غلاف ان کے مدلل اشعار مثنوی بندگی نامہ میں ملتے ہیں۔

  اقبال کی فارسی شاہکار کتاب، جاوید نامہ ،کا ذکر اپ بعد میں پڑھیں گے ۔اقبال کا یہ تخلیلاتی افلاکی سفرنامہ فارسی ادب کی ایک منفرد اور بے نظیر کتاب ہے۔ کتاب زبور انجم کی غزلیات پر اقبال نے خود ناز فرمایا ہے۔

  

 اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبور

  فغاں نیم  شبی بے نوائے راز نہیں

   عجم 


 اقبال نے اپنے سفر افغانستان کی رو داد فارسی مثنوی مسافر میں لکھی ہے اس طرح عالم خیال میں ان کے سفر حجاز کی ایمان افروز کیفیت اپ ارمغان حجاز میں دیکھ سکتے ہیں۔ اردو کی طرح انہوں نے فارسی میں بھی بعض شاہکار نظمیں لکھی ہیں ۔یہ بات بھی اپ کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ اہل زبان کے نزدیک بھی کتاب فارسی میں ایک نئے اسلوب شعر کے بانی ہیں جسے اسلوب اقبال کہنا چاہیے۔

  لہذا پاکستان کے تعلیم یافتہ افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ علامہ اقبال کے اردو انگریزی کتابوں کے علاوہ ان کی فارسی تصانیف سے بھی مستفید ہوں۔ اقبال نے عربی اور فارسی زبانوں میں بہت مہارت حاصل کی تھی۔ فارسی سے ان کی طبی مناسبت بھی تھی۔ فارسی اور ایران کے ساتھ مناسبت اس بات سے بھی واضح ہے کہ اقبال نے اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ایران میں مابعد الطبیات کا ارتقاء کے عنوان سے لکھا تھا ۔اقبال غالبا بیسویں صدی عیسوی کے اوائل سے ایک خاص موضوع اور فلسفہ حیات پر اپنے خیالات پیش کرنے کا سوچتے رہے تھے۔ اسے اب ہم فالسفہ خودی کے نام سے جانتے ہیں۔ اس فالسفے کو بظاہر 1912 عیسوی کے لگ بھگ اقبال نے نظم میں پیش کرنا شروع کیا تھا۔ مگر چونکہ اردو اصطلاحات اور طرز بیان ساتھ نہ دے سکا ۔انہوں نے اسے فار سی مثنوی میں لکھا ۔  16 اگست 1928 عیسوی کے ایک مکتوب میں علامہ اقبال نے تمکین کاظمی کی مثنوی اسرار خودی، کے منظوم ترجمے کے ساتھ سلسلے میں لکھا تھا ۔

  میں ذاتی طور پر ترجموں کا قائل نہیں ہوں تاہم اپ چند اشعار کا ترجمہ کر کے بھیجیں گے تو میں رائے دینے کے قابل ہو سکوں گا ۔  میں نے خود اسرار خودی پہلے اردو میں لکھنی شروع کی تھی مگر مطالب ادا کرنے سے قاصر رہا اور جو حصہ لکھا گیا تھا اس کو تلف کر دیا گیا۔ اقبال کی پہلی فارسی کتاب یہی مثنوی اسرار خودی ہے جو 1915 عیسوی میں پہلی بار لاہور سے شائع ہوئی۔ براعظم ایشیا میں مسلمانوں کے تین چوتھائی آ بادی رہتی ہیں اور اس براعظم کی ایک بڑے حصے میں فارسی کا رواج تھا لہذا شعر فارسی کے ذریعے اقبال نے مسلمانوں کو بیدار کرنے کی براہ راست کوشش کی تھی۔ اقبال نے کئی فارسی اشعار میں اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ انہوں نے ممالک عجم کو بیدار کر دیا۔ ساتھ ساتھ افسوس بھی کرتے رہے کہ ممالک کے عرب ہنوز ان کے پیغام سے کم حقہ اگاہ نہیں ہو سکے مگر اب تو اقبال کی کتابوں کے عربی میں بھی ترجمے ہو چکے ہیں۔

  

 چوتھی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اقبال کو فارسی کے ساتھ ایک طبعی مناسبت تھی اور اس زبان میں کامیابی کے ساتھ اظہار خیال کرنے کا انہیں اعتماد اور یقین تھا۔ پانچویں وجہ فارسی کی بعض لسانی خصوصیات ہیں جو ترکیب سازی اور اظہار بیان میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہیں ۔فارسی کی شیرنی اور مٹھاس سے قطع نظر، سابقوں لحقوں کے ذریعے زبان کی نئی تراکیب اسانی کے ساتھ وضع کر لی جاتی ہے مثلا

 شروع میں با اور بے لگانے سے با ادب اور بے ادب یا اخر میں گر اور ور  لگانے سے نواگر، کارگر، دانشوار اور پیشہ ور جیسے الفاظ اقبال نے مثنوی اسرار خودی کی تمہید میں فارسی کی شیرنی اور زبان میں سہولت کے ساتھ خیالات کے ادا ہو جانے کا خود بھی ذکر کیا ہے۔ اقبال نے فارسی گوئی کی ایک اور وجہ ایک خط بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ چونکہ خودی کے بارے میں ان کے افکار انقلابی تھے اور سب لوگوں کا ان پر اتفاق کر لینا مشکل تھا ۔اس لیے انہوں نے خواص تک یہ خیالات پہچانا کافی سمجھا۔ برصغیر میں فالسفیانہ فارسی سمجھ لینے والوں کی چونکہ کمی ہے لہذا انہوں نے اس میں عافیت جانی کہ یہ خیالات فارسی میں ادا ہوں مگر علامہ مرحوم کو ان چند فارسی فہموں نے بھی ارام سے بیٹھنے نہ دیا اور ان کی افکار کی شروع شروع میں کافی مخالفت ہوئی۔اس مخالفت سے علامہ اقبال کی فارسی شاعری پر کوئی خاص اثر نہیں پڑھا اور اقبال کی فارسی شاعری نے کافی مقبولیت حاصل کی۔۔ اور تا قیامت علامہ اقبال کی شاعری کی مقبولیت پہلے سے بھی زیادہ بڑھتی چلی جائے گی۔

 ایم اے اردو کی تیاری کے لیے علامہ اقبال کی فارسی شاعری کا مطالعہ خود بھی پڑھے اور دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں ۔

 اقبالیات اور فارسی دونوں کے لیے اہم سوال ہے ۔

 پیپر میں انے والے سوالات میں شامل ہیں ۔

 شکریہ 

Post a Comment

0 Comments