مفائد اہل دنیا
اردو نظم مفائد اہل دنیا |
کیا کیا فریب کہیے دنیا کی فطرتوں کا
مکر و دغا و دز دی ہے کام اکثروں کا
جب دوست مل کے لوٹیں اسباب مشفقوں کا
پھر کس زبان سے شکوہ اب کیجئے دوستوں کا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
گردن کو ہے اچکا تو چور رات میں ہیں
نٹ کھٹ کی کچھ نہ پوچھو ہر بات بات میں ہے
اس کی بغل میں گپتی تیغ اس کے ہات میں ہے
وہ اس کی فکر میں ہے یہ اس کی گھات میں ہے
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
اس راہ میں جو آیا سوار لے کے گھوڑا
ٹھگ سے بچا تو اگے قزاق نہ چھوڑا
سویا سرا میں جا کے تو چور نے جھنجھوڑا
تیغا رہا نہ بھالا گھوڑا رہا نہ کوڑا
ہشیار یار جانی یہ دست ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
چڑیا نے دیکھ غافل کپڑا ادھر گھسیٹا
کوے نے وقت پا کر چڑیا کا پر گھسیٹا
چیلوں نے مارے پنجے کوے کا سر گھسیٹا
جس کے ہاتھ آیا اس نے ہی درھر گھسیٹا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
نکلا ہے شیر گھر سے گیدڑ کا گوشت کھانے
گیدڑ کی دھن لگا دے خود شیر کو ٹھکانے
کیا کیا کرے ہیں باہم مکر و دغا بہانے
یاں وہ جگہ نظیر اک جس کو رکھا خدا نے
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
اٹھارویں صدی کا آگرہ، دلی اور لاہور ایک جیسے آشوب کا شکار تھے ان تینوں شہروں کا زوال دولت مغلیہ کی مرکزی ہیئت کی تباہی کے باعث ہوا تھا دلی کی مرکزی ہیئت کی مضبوطی سے ان شہروں کی سیاسی اور عسکری قوت وابستہ تھی جوں ہی یہ ہیئت بگڑی ان شہروں کا وجود بھی ٹوٹنے پھوٹنے لگا۔ نواب محتشم الدولہ کی کتاب سیر الجتشم ،دلی کی جامع مسجد کے حوالے سے دارا شکوہ اور شاہجہان کے درمیان ایک مکالمے کا حوالہ ملتا ہے جس کا تعلق ہندوستان کی دفاعی حکمت عملی سے تھا۔
ایک روز دارہ شکوہ نے عرض کیا کہ قبلہ عالم کرسی مسجد جامعہ کی فصیل قلعہ سے بہت بلند ہے اگر خدانخواستہ حریف بعد دخل یابی شہر کی مسجد سے توپ دھاغے تو کوے کی زد محل شاہی تک ممکن ہے فرمایا کہ بابا جان دولت خانہ شاہی کا قلعہ فصیل دریائے اٹک ہے ہر گاہ و مقام سدرہ مخالف نہ ہوا تو اس قلعے کا کیا وجود ہے۔
شاہجہان کی سیاسی عسکری اور دفاعی بصیرت نے واقعتا دلی کے دفاع کو اٹک سے منسوب کر رکھا تھا اور جب عہد محمد شاہ میں ایک بار یہ دفاع نادر شاہ کے ہاتھوں 1739ء میں برباد ہو گیا تو پھر حقیقتا دلی کا قلعہ بھی محفوظ نہ رہا ۔نادرشاہ کے بعد طویل عرصہ تک درانیوں کی سپاہ اٹک کو پار کر کے لاہور کو روندتی ہوئی لال قلعے کی فصیلوں سے ٹکراتی رہی۔
شاہجہان اٹک کی دفاعی حکمت پر تو انحصار کرتا تھا مگر اس نے یہ کبھی سوچا بھی نہ ہو گا کہ جنوبی ہندوستان کے میدانوں اور پہاڑوں سے اٹھنے والے پستہ قد مرہٹے مستقبل میں شمال کی طرف طوفان کی طرح اٹھیں گے اور آگرہ دلی میں پہنچ کر اس کی تعمیر کردہ عمارت کا سونا ،چاندی اور پتھر نوچ ڈالیں گے پھر ایک دن ان کے قدم پنجاب کے میدانوں کی طرف بڑھیں گے اور وہاں کے ادینہ بیگ خان 1958 عیسوی میں ان کی خوشنودی کے لیے شاہجہان ہی کہ تعمیر کردہ شالیمار باغ میں خوشبودار پانیوں کے فوارے چلا کر اور روشنیوں کو جلا کر ان کی اؤ بھگت کا سامان فراہم کرے گا اس کے بعد ان کے گڑ سوار دریا اٹک کے دفاعی حصار کو بھی عبور کر کے اگے بڑھ جائیں گے۔
نظیر کے شہر آگرہ کی اوالین تباہی بادشاہ گر سید حسین علی خان کے ہاتھوں مغلوں کے دور آخر میں اس وقت ہوئی جب اس نے قلعہ پر قبضہ کیا آگرہ کے مورخ
سید
محمد لطیف کے بقولِ
قلعے پر قبضے کے بعد امیر الامرا حسین علی خان اس میں داخل ہو کر ان تمام خزانوں جوہرات اور قیمتی اشیا پر قبضہ کر لیا۔
جنہیں تین صدیوں سے وہاں جمع کیا گیا تھا وہاں یہ نور جہاں بیگم اور ممتاز محل کے اثاثے بھی موجود تھے مختلف اطلاعات کے مطابق جن کی مالیت دو سے تین کروڑ روپے تک تھی خاص طور پر وہاں سچے موتیوں کی ایک چادر بھی تھی جسے شاہجہان نے ممتاز محل کے مزار کو ڈھانپنے کے لیے بنوایا تھا اسے برسی کے موقع پر جمعہ کی رات کو اس پر بچھایا جاتا تھا اس کی مالیت کئی لاکھ روپے تھی وہاں پہ نور جہاں کا آفتابہ اور سچے موتیوں اور سنہری کام کی کشیدہ کاری سے مزین اور قیمتی یاقوتوں اور زمردوں کے حاشیہ سے آراستہ اس کا تکیہ بھی تھا ۔
1760 عیسوی کی دہائی میں آگرہ پر سورج مل چاٹ کا قبضہ ہوا اس دوران میں سکندر کے دروازوں کے مینار اڑا دیے گئے اور تاج محل کے عظیم الشان نقرئی دروازے چرا لیے گئے۔ جاٹوں کے قبضے کے دوران سربہ فلک عمارات ڈھا دی گئیں۔ خانقاہیں تباہ ہوئیں ۔علمی ادارے برباد ہوئے علماء کے گھر لٹے ۔سورج مل کے مقرر کردہ حاکم آگرا سو ہارام جاٹ نے آگرہ شہر کے امراء کے خزانوں کی تلاش میں نفیس اور عالی شان عمارتیں کھدوا ڈالیں ۔شہر کے ساہو کاروں پر اتنے ظلم توڑے کہ ہزار ہانفوس آگرا سے فرار ہو گئے۔ محلے کے محلے ویران ہو گئے ۔اگرہ کی یہ عالم ناک تباہی نظیر کے شہر آشوب میں دیکھی جا سکتی ہے اس شہر آشوب کو نظیر کے فن کا شاہکار کہا جا سکتا ہے یہ اس کے افسردہ، دکھی اور شکست خوردہ دل کی آواز ہے جس میں ہر مقام پر آگرہ کے لیے اس کے خلوص اور محبت کی گواہی موجود ہے۔ شہر آشوب میں سب سے موثر حصہ اقتصادی تباہی سے متعلق ہے نظیر کے بقول 36 پیشے والوں کے کاروبار بند تھے گویا یہ پورے معاشی نظام کے ختم ہونے کی دلیل تھی ۔اکبر اور شاہجہان کا پررونق اور ترقی پذیر آگرا نظیر کے دور میں خزاں زدہ شہر کی تصویر بن گیا۔ وہ اجڑی عمارتوں، قلعوں ،مکانوں، اور مکینوں کی تباہ حالی پر گریہ زاری کرتا ہے یہ اس آگرا کی تباہی ہے جسے کبھی میر نے آباد دیکھا تھا جو اس کا اپنا شہر تھا میر اس کی تباہی پر بلبلا اٹھا تھا ۔
میں نے سوچا سبحان اللہ یہ وہی شہر ہے گلی گلی میں عارف کامل، فاضل ،شاعر، منشی، دانشمند، فقیہہ، متکلم ،کلیم ،صوفی، محدث، مدرس، درویش، متوکل، شیخ ،ملا، حافظ، قاری ،امام، معظم، مسجد ،خانقاہ ،تکیہ، مہمان، سرا ،مکان اور باغ تھے اور آج کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آتی جہاں بیٹھ کر دل خوش کر لوں ایسا آدمی نہیں ملتا جس سے کچھ دیر گپ کر سکوں بس ایک وحشت ناک خرابہ تھا جسے دیکھ کر بہت رنج اٹھایا اور واپس اگیا۔
آگرا کی تباہی اور بربادی میں زرعی نظام کا زوال اور پیداواری قوتوں کے انحطاط کا نمایاں حصہ نظر اتا ہے اورنگزیب کے عہد حکومت میں مغلوں کی بیشر عکسری قوت دکن میں سرگرم رہی جس کے باعث آگرا اور اس کے ارد گرد کے تمام علاقے مقامی سرداروں کے محلوں کے باعث غیر محفوظ ہو گئے تھے۔ سڑکیں تحفظ سے مرحوم ہو چکی تھی اس لیے تجارتی راستے بند ہو گئے تھے کیونکہ مغلوں کی عسکری حکمت عملی تمام تر توجہ دکن پر مرکوز ہو چکی تھی۔ اس لیے شمالی ہند خاموشی سے اندر ہی اندر کمزور ہو رہا تھا مگر آگرہ کی تباہی میں بڑا کردار جاٹوں اور مراہٹوں کا بھی ہے تھا۔ 1785 عیسوی میں قلعہ پر مرہٹے قابض ہوئے انسانی جان و مال بدستور تباہ و برباد ہوتے رہتے تھے تقریبا پون صدی کی سماجی نراجیت سے سماج کے تمام طبقات اوپر سے نیچے تک اجڑتے رہے۔ انتظامی ڈھانچے کی توڑ پھوڑ کے باعث ایسا ماحول مدتوں تک پیدا نہ ہو سکا تھا جو انسانی تحفظ کی ضمانت دیتا ۔ پیداواری مسائل اور قوتوں کو مجتمع کرتا محاصل سے عسکری اور انتظامی ڈھانچے کو استحکام بخشتا جس سےصنعت ،تجارت ،فنون اور دستکاریوں کو فروغ ملتا۔ نظیر کے عہد کا آگرا ان سب عوامل کی عدم موجودگی میں تاریخ کی دردناک وادی میں گریہ کناں دیکھا جا سکتا ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ شہر کی سماجی زندگی کو کسی ساحر نے اپنے سحر سے ساکن کر دیا ہے شہر اپنی حرکی قوتوں سے مرحوم ہو کر گہرے دکھ کرب اور عذاب سے اپنے تار تار وجود کو ہمارے سامنے پیش کر دیتا ہے شہر کے تمام پیشہ ور اپنی اپنی تباہی کی تمثالوں کے ساتھ سوگوار کھڑے نظر اتے ہیں۔
نظیر اکبر آبادی کی نظم مفائداہل دنیا معاشرے آگرہ کی تباہی کو بیان کرتی ہے نظیر اپنی نظم نگاری میں معاشرے کے حالات بیان کرتے ہیں ۔خود بھی پڑھے اور دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں ۔
شکریہ
0 Comments
Thanks for comment