https://www.newnewsandstory.online/?m=1 نظیر اکبر آبادی اور اس کی نظم نگاری پر بحث کریں ؟

نظیر اکبر آبادی اور اس کی نظم نگاری پر بحث کریں ؟

 



نظیر اکبر آبادی اور نظم نگاری 

1830 عیسوی تا 1735 عیسوی



Urdu notes
Urdu Education 


نظیر اکبر آبادی اور نظم نگاری 



اٹھارویں صدی کے نصف میں ہم شمالی ہند کی روایت پرست شعری فضا میں ایک ایسے شخص سے ملتے ہیں جس نے روایت اور اقدار کے بندھنوں کو توڑ کر ایک نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے اردو شاعری کے وجود کو ہلا کر رکھ دیا ۔اردو ادب کے بڑے بڑے ادیب اسے ہمیشہ رد کرتے رہے۔ جہاں کہیں اس کے معاصرین نے اس کا ذکر کیا بھی تو اسے زمرہ شعراء سے خارج ہی رکھا۔ واقعتاً اردو ادب کے اکابرین کے لیے راندہ درگاہ ہی تھا یہ نظیر اکبر ابادی تھا جو جاگیردار روایت کی رسم پرستی آداب اور ضابطوں کو توڑتے ہوئے اردو شاعری کو لوک روایت پر لے ایا تھا جہاں عام انسان کے جذبات و احساسات اور اس کی عمومی زندگی کی نمائندگی کی گئی تھی نظیر اکبر آبادی کے دور کی شاعری کلاسیکی اقدار کی ترجمان تھی اس لیے اس روایت سے متعلق اکابرین ادب نے اس کی ادبی حیثیت کا کبھی بھی احترام نہ کیا۔

آئیے ہم 1756 عیسوی کے آس پاس دلی میں ولی محمد سے ایک ملاقات کرتے ہیں یہ وہ دور ہے جب پنجاب اور دلی میں احمد شاہ ابدالی کے نئے حملوں کی خوفناک خبروں کی اطلاعات سے شمالی ہند لرز رہا تھا تاریخ کے اس خاص دور میں عوام و خواص کی کیا حالت تھی ان کے ذہنی کرب کا اندازہ کرنے کے لیے یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔

 اہل دلی جن کی نگاہوں کے سامنے نادر کی تصویر لباس خونی میں پھر رہی ہے ان کے دلوں کا اس وقت کیا حال ہوگا ؟اس قیامت صغریٰ کو ابھی تک پورے 18 برس نہیں ہوئے لوگوں کے دلوں سے ابھی عزیزوں کے داغ نہیں بھولے سینکڑوں مکان ابھی تک بے مکیں پڑے ہوئے ہیں اباد نہیں ہوئے ہزاروں عورتیں ہنوز اپنے لوٹے ہوئے زیوروں کو رو رہی ہیں نظیر کو گو نادر کے حملے کے وقت ہوش نہ تھا مگر ہوش سنبھالتے ہی وہ اس کی ہوش اڑانے والی داستانیں سننے لگا۔ چشم دید بیان کرنے والوں کی گذشتہ خوف کے تصور سے پتھرائی ہوئی انکھیں اور اوپر کو کھینچی ہوئی بھنویں اس کے اغاز عمر کے توہم امیز دل پر نقش کلچر ہو گئی ہیں۔

  ذہنی کرب کے اس آشوب میں نظیر کا خاندان دلی چھوڑنے کا منصوبہ بناتا ہے موت اموال کی تباہی عدم تحفظ کی فضا اور حملہ آوروں کی دہشت اور وحشت ان کے خاندان کو دلی سے نکلنے پر مجبور کر دیتی ہے شہر میں مچی ہوئی بھگدڑ کو دیکھ کر یہ لوگ شہر چھوڑنے کے لیے تیاری شروع کر دیتے ہیں۔نظیر پہلی ڈولی رتھ لے کر دروازے پر آ جاتا ہے عورتوں سے مل کر سارا مال اسباب سواریوں پر رکھتا ہے خاندان کی دو عورتوں اور نوکر چاکر باندیوں سمیت 10 بارہ افراد پر مشتمل یہ دہشت زدہ قافلہ آگرہ کا رخ کرتا ہے۔ آگرہ جو نظیر کے فن کا مستقبل قریب میں مرکز بننے والا تھا اپنے نو وارد شہری کو خوش امدید کہہ رہا تھا۔ اس کی شاعری اس شہر کی ہندو مسلم ثقافت کے امتزاجی رویوں سے اپنی منفرد شناخت کے ساتھ ظاہر ہونے والی تھی۔

  اٹھارویں صدی کے ربع آخر میں جو شخص اردو شاعری کو امرا کے دیوان خانوں اعلی  مجلسوں اور ادبی خواص کے حلقوں سے نکال کر لوک معاشرت کے زندہ منظر نامے میں لے آیا وہ نظیر اکبر آبادی ہی تھا جو آگرہ کا نیا اباد کار تھا ۔

  نظیر کی تخلیقی قوت اردو شاعری کے اس روایتی قلعے پر ضرب لگائی جو فارسی شاعری کی روایت پر کھڑا تھا اور جہاں غزل مثنوی اور قصیدے جیسی اصناف سے ہٹ کر کسی دوسری صنف کے نپینے کے امکانات نظر نہ اتے تھے بلکہ جہاں زندگی اور کائنات کو مظاہر کی صورتوں میں نہیں بلکہ محسوسات یا تاثرات کی سطح پر شاعری کا موضوع بنایا جاتا تھا اپنے اندر ہی اندر سفر کرنے والے شاعر حیات و کائنات کی خارجی تمثالیں  بنانے میں دلچسپی نہ رکھتے تھے لیکن ان تمثالوں سے ان کے دلوں پر گزرنے والی واردات ان کی شاعری کا موضوع ضرور بنتی تھی آگرہ میں مستقل طور پر اباد ہونے والے شاعر نظیر اکبر بادی دنیا کے منظر موسموں، تہواروں، میلوں بازاروں اور گلی کوچوں کی متنوع زندگی کو اردو شاعری کے کینوس پر اتارنے کا عزم لے کر اٹھا تھا اس نے انسانی فکر و فلسفہ کی جگہ عام انسانی زندگی کو کینوس پر منتقل کیا اور اس طرح اپنے دور کی زندگی کا ان تھک مصور بن گیا وہ ہر شے ہر موضوع ہر خیال پر روانی کے ساتھ شاعری کر سکتا تھا اس نے ابتدا ہی سے شاعری کے رسمی تصورات کو رد کر دیا تھا جن کے مطابق شاعری کی حدیں بہت سکڑی ہوئی تھیں نظیر نے ان حدود سے انحراف کرتے ہوئے مستقبل میں بنجارا، ادمی، روٹی، اٹا ،دال ،اور پیسہ پر نظمیں لکھیں ۔یہ نظیر تھا جس کی شاعری ذہانت نے آگرہ کی ککڑی، کنکو اور پتنگ، اژدھے کا بچہ، ریچ کا بچہ اور گلہری کے بچے پر بھی طبع آزمائی کی۔ اس نے ایسے تمام موضوعات کو شاعری کا حصہ بنا دیا  جو مروجہ اور رسمی شعری آداب میں غیر شاعرانہ سمجھے جاتے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اردو ادب کی تاریخ میں نظیر کو غیر رسمی شاعری کا شاعر کہنا چاہیے۔

  اردو کے کلاسیکی نقاد نظیر کو شاعر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے ان کی زبان ان کے نزدیک غیر فصیح تھی اور اس کا ادب سوقیانہ سمجھا جاتا تھا جاگیردارنہ روایات و قدار کے حامل شعراء کے لیے نظیر ہمیشہ ایک غیر اہم حوالہ ہی رہا۔ درحقیقت نظیر نے رسمی معیارات میں جکڑے ہوئے ایسے معاشرے میں شاعری کی جہاں اس قسم کے شاعر کے لیے سانس لینا بھی مشکل تھا یہ وہی ادبی ماحول تھا جہاں مصحفی جیسے بڑے شاعر میں آزاد کو ،امروسہ پن، نظر ایا تھا یہ وہی ادبی رویہ ہے جسے شمس الرحمن فاروقی نے اپنی ایک تازہ تصنیف میں ،دہلوی سامراج، کہا ہے۔

  نظیر اکبر آبادی نے نہایت خاموشی کے ساتھ دلی اور لکھنو کے ادبی اشرفیہ کی جملہ شعری رسمیات کے خلاف اپنی شعری اور لسانی بغاوت کا سلسلہ جاری کیا تھا اسے اس بات سے غرض نہ تھی کہ شیفتہ اسے شاعر مانتا ہے کہ نہیں۔ وہ شیفتہ کی ادبی دنیا کا باشندہ ہی  نہ تھا۔ اس کی تخلیقی دنیا کا مال اسباب غزل کی دیو مالا سے بالکل مختلف تھا۔ وہ غزل کا رسمی عاشق نہیں تھا اس لیے اس نے غزل کی جمالیات سے انحراف کیا تھا وہ غزل کی لطافت ،شائستگی سوز و گداز ،نشاط، اور راز ونیاز کا شاعر نہ تھا اس نے غزل کے روایتی طرز احساس کو رد کر کے اپنا سیدھا سادہ طرز احساس اختیار کیا ۔

  دراصل اس کی جنگ شاعری کے اس کلاسیکی مفروضات سے تھی جو صدیوں سے عربی فضا کو اسیر کیے ہوئے تھے اس کے شعری اقدامات سے کم از کم نظیر کی اردو شاعری نے رہائی  ضرور حاصل کر لی تھی۔

   نظیر کی شاعری ہمارے سامنے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے اس انسان کو پیش کرتی ہے جو تاریخ کی جبریت کا شکار تھا جاگیرداری زوال کو سزا بھگتنا اس کا مقدر بن چکا تھا اور ابھی آنے والے ایام میں اسے نو آبادیاتی نظام کے کڑے مصائب کا بھی سامنا کرنا تھا۔ تاریخ کی اس جبریت میں اس کی مثبت  صلاحیتیں گہنائی جا چکی ہیں۔ اب وہ سخاوت، کرم، مہربانی اور عطا کی اصلاحوں کو فراموش کر کے ذاتی خود غرضی کی نہ مٹنے والی تشنگی کا عذاب محسوس کر رہا تھا۔

    نظیر کی شاعری اس انسان کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہے جو معاشرے کی اقتصادی تباہ حالی کی وجہ سے گو نا گوں مصائب کا شکار تھا ۔پیداواری قوتوں کے بحران اور انحطاط سے اس کے وسائل اور زر کا دائرہ عمل تقریبا خشک ہوتا جا رہا تھا اقتصادی پیسے کو حرکت دینے کے لیے سرمایہ کی ضرورت تھی مگر سرمایہ کم یاب ہو چکا تھا۔ تجارتی منڈیاں اپنی داخلی توانائی سے محروم ہو چکی تھی ایسے حالات میں معاشرے کے تمام طبقے طلب زر کی احتجاج شدت سے محسوس کر رہے تھے ۔مگر اس احتجاج کو اقتصادی انحطاط میں ڈوبی ہوئی منڈیاں کہاں سے فراہم کرتیں ۔ہندوستانی منڈیوں میں سرمائے کی انحطاط پر بحث کرتے ہوئے

    

 پروفیسر محمد مجیب 

 

ملکی نراجیت اور نو آبادیاتی سرگرمیوں کو بھی اس بحث میں شامل کرتے ہیں۔ جب یورپی ملکوں نے سمندری راستوں پر قبضہ کر لیا اور تجارت شروع کر دی تو مغل سلطنت سمندری راہوں سے محروم ہو گئی ایک زمینی طاقت رہ گئی تھی جس کا زیادہ انحصار زراعت پر تھا اٹھارویں اور ابتدائی انیسویں صدی کے راج میں سڑکوں کا سفر بھی خطرناک ہو گیا تو ملک کے اندر تجارت مفلوج ہو گئی۔

کلکتہ مدارس اور بمبئی صنعت اور تجارت کا اصل مرکز بن گئے مغل راج کے زمانے میں بڑی آبادیاں اور ترقی کرتی ہوئی صنعتوں کے جو شہر تھے  انہیں خراجی  قوتوں کا مقابلہ کرنا پڑا اور معاشی اعتبار سے ان کا گلا گھونٹ دیا گیا۔

 نتیجہ کے طور پر یہ پورا معاشرہ زر کے تعاقب میں تھا۔ نظیر اپنے عہد کے، مبتلائے زر، معاشرے کی داستان سناتا ہے جو زر کے اصول کے لیے اخلاقی نظام کو تہہ و بالا کر رہا تھا سرمائے کے انحطاط کے سبب صدیوں پرانی اقدار ریزہ ریزہ ہو گئی تھیں ملکی نراجیت اور نو آبادیاتی نظام کے منفی اثرات سے ہندوستانی معاشرہ بدترین اقتصادی بحران سے گزر رہا تھا۔

 

 جو ہے سو ہو رہا ہے

  سدا مبتلائے زر

  

 نظیر کی شاعری میں پیٹ، اٹا، دال، روٹی، پیسہ، کوڑی، روپیہ کا روپ اور مفلسی جیسی نظمیں دیکھ کر یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس نے انسانی زندگی کے معاشی مسائل کو کتنی سنجیدگی سے دیکھا ہے۔ وہ شاعر جس نے اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی میں روٹی اور چپاتی پر نظمیں لکھیں اور پیٹ کو اپنا موضوع بنایا۔  اس شاعر کے بارے میں

 

 ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار

 

 کا یہ کہنا بالکل درست ہے اس نے اقتصادی مسئلہ کو اقدار حیات میں ایک بنیادی قدر کی حیثیت سے بڑی اہمیت دی ہے۔ نظام حیات میں روٹی کے احتیاج کو پورا کرنے کے لیے ایک اہم مادی فریضہ پورا کرتی ہے ۔نظیر کے زوال یافتہ معاشرے کے بدترین معاشی انحطاط میں بھوکے انسان کے لیے روٹی کیا تھی اس کا اندازہ آج ہم نہیں کر سکتے ۔نظیر کی نظم روٹی پڑھنے سے بھوک کی اس شدت کو ضرور محسوس کر سکتے ہیں جس کا تجربہ نظیر اور اس جیسے لاکھوں انسان شب و روز کر سکتے ہیں۔

 

نظیر اکبر آبادی اور نظم نگاری اردو کا ایک اہم سوال خود بھی پڑھے اور دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں۔

شکریہ 

اردو سوال وجواب نظم مفائد اہل دنیا پر نوٹ یہاں کلک کریں اردو علم کے لیے  

Post a Comment

0 Comments