https://www.newnewsandstory.online/?m=1 مثنوی مولانا روم کی خصوصیات بیان کریں ؟

مثنوی مولانا روم کی خصوصیات بیان کریں ؟

مثنوی مولانا روم کی خصوصیات


Notes
Urdu notes 


 مولانا رومی کو فارسی شاعری میں بہت بڑا مقام حاصل ہے۔ فکری اور فنی لحاظ سے آپ کی شاعری کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ آپ کی مثنوی، مثنوی معنوی، جو تقریبا 26 ہزار اشعار پر مشتمل ہیں۔ آپ کی شہرت و عظمت کا بنیادی باعث بنی۔ اس مثنوی کو پہلوی یعنی فارسی زبان کا قرآن کہا گیا ہے ۔


 

مثنوی مولوی معنوی ہت قرآن در زبان پہلوی ۔


اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں بہت سے قرآنی مسائل آگئے ہیں اور اسی باعث اسلامی تصوف پر اسے جامع ترین اور بہت موثر مثنوی قرار دیا گیا ہے۔ اسی مثنوی  نے علامہ اقبال جیسے عظیم مفکر کو اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے مولانا رومی کو اپنا مرشد کہا اور خود کو وہ رومی کا ایک ادنیٰ عقیدت مند کہنے میں فخر محسوس کیا کرتے تھے۔

 مثنوی معنوی مولانا جلال الدین کے افکار گراں بہا کا ثمرہ اور ان کے اشعار کا بہترین مجموعہ ہے بلکہ یہ فارسی زبان میں تصوف کا مکمل ترین دیوان ہے ۔اس میں چھ دفتر ہیں اور اشعار کی تعداد 26 ہزار ہے جو بحر رمل میں کہے گئے ہیں۔( شفق)

  مولانا کی مثنوی نے ہر زمانے میں اہل دل کو متاثر کیا ہے اور ان کی قدم قدم پر رہنمائی کی ہے ۔حتی کہ بیسویں صدی کے سائنسی دور میں علامہ اقبال نے مولانا کو اپنا مرشد تسلیم کر کے ان کے تصوف و فلسفہ کے توانا افکار کو اپنی تعبیر و توضیح کے ساتھ دوبارہ پیش کیا ہے اور اپنے عصری تقاضوں کے ماتحت ان میں اضافہ کیا۔ اقبال نے رومی سے الہام حاصل کر کے اپنے فن و فکر کی پرورش کی ہے۔ اس لحاظ سے رومی نہ صرف ان لوگوں کے مرشد ہیں جن کے صوفیانہ خیالات سے اہل شریعت اتفاق نہیں رکھتے اور جن کی زندگی میں ایک گو نہ فرار کی کیفیت موجود ہے بلکہ وہ اقبال کے بھی مرشد ہیں۔ جو عمومی طور پر تصوف کے خلاف ہیں ۔لیکن رومی کے تصوف میں توانائی قوت جذبہ وجدان و الہام انسانی شخصیت کے لیے سامان فروغ انسان کے کل ارتقاء میں پوری پوری معاونت کرنے والے عناصر پاتا ہے اور رومی سے رشد و ہدایات حاصل کر کے اسلام کی نئی تشکیل و تعبیر سے مسلمانان عالم کی کھوئی ہوئی عظمت واپس لوٹانے کا متمنی ہے۔ اس زمانے میں بہت سے صوفیانہ کو لوگ بھولتے جاتے ہیں اور علم و فلسفہ کی نئی روشنی میں اس مسلک کے احیاء کی کوئی خاص صورت نظر نہیں اتی۔ صرف ایک ایسا صوفی شاعر ہے جس نے اس زمانے میں پھر جدید علوم و فنون سے اگاہ ذہن کو اپنی مقناطیسی کشش سے متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے دلوں میں اقبال کی وساطت سے رومی کو نئی زندگی مل گئی ہے۔

   رومی کے اس احیاء کی حقیقت اس کی پائدار عظمت و تواناتصوف کی دلیل ہے۔ مثنوی میں مولانا نے حکایتوں کے وسیلے سے حقائق معنوی اور نتائج عرفانی کو بیان کیا ہے۔ اسی ترتیب سے وہ قرآن شریف کی بہت سی آیتوں اور اخبار و حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرح صوفیانہ طرز پر کرتے جاتے ہیں یہ صحیح ہے کہ یہ مثنوی تصوف میں االین مثنوی نہیں ۔اس سے پہلے سنائی اور عطار جیسے عارف شاعروں نے صوفیانہ عقائد کی شرح میں مثنویاں تصنیف کی تھیں ۔مولانا جلال الدین نے افکار و اذہان پر بڑا زبردست اثر ڈالا ہے۔ ان کے پیرو اور مقلد بے شمار ہیں۔ اپ کا معنوی اور ادبی اثر نہ صرف ہندوستان اور ایشیائے کوچک میں اپنے انتہائی عروج پر ہے بلکہ اپ کی شہرت مغربی ملکوں میں بھی پھیل چکی ہے اور ان ملکوں کی مختلف زبانوں میں مثنوی کا ترجمہ ہو چکا ہے۔( شفق)

    اس مثنوی کے چھے دفتر یعنی باب ہیں۔ یہ تصنیف 658 ہجری  سے 666 ہجری کے درمیانی عرصے میں مکمل ہوئی۔ مولانا نے اخلاقی موضوعات کی وضاحت انسانی نفسیات کے مطابق قصہ کہانی یعنی تمثیل کے انداز میں کی ہے۔ انہیں یہ علم ہے کہ براہ راست واعظ کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا کہانی یا تمثیل کا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اپ کو تمثیل کا بادشاہ کہا گیا ہے۔ اخلاقی موضوعات کے علاوہ مولانا نے تصوف اور عرفان کے مشکل اور نازک مسائل بھی اسی طرح بادہ، دلنشین اور موثر انداز میں بیان کیے ہیں یعنی ہر ہر موقع پر اپ نے مثالوں اور دلچسپ کہانیوں سے کام لیا ہے۔ مولانا نے ایک اور جدت سے کام لیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اپ نے مثنوی میں عام ڈگر سے ہٹ کر مضامین میں تسلسل نہیں رکھا پھر موضوعات کے لحاظ سے بھی کہیں تبویب (باب بنانا) نہیں کی۔ اس انداز سے مثنوی میں کسی قسم کی بناوٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ مولانا کا طریق کار یہ ہے کہ وہ ایک بات کرتے ہیں پھر اس سے جملہ ہائے معترضہ کی صورت میں ایک اور بات نکالتے ہیں اور یوں بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے اور پہلی بات کا نتیجہ کچھ دور جا کر سامنے اتا ہے۔ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مولانا کے ذہن میں افکار کا ایک طوفان برپا ہے  اور وہ ان افکار و خیالات کو دھڑا دھڑ کسی ترتیب کے بغیر صفحہ قرطاس پر بکھیر  رہے ہے ۔پڑھنے یا سننے والا اس انداز سے بے حد متاثر ہوتا ہے اور مولانا کی باتیں اس کے دل و دماغ پر چھا جاتی ہیں۔ اس مثنوی کو باہر کی دنیا میں بھی بڑی پذیرائی ملی ہے۔ نکلسن جیسے مشہور متشرق نے اپنی زندگی کا خاصہ حصہ اس کے مطالعہ اور ترجمے کے لیے وقف رکھا۔ خود برصغیر میں یہ اہم مثنوی مختلف نصابات میں شامل رہی ہے اج بھی شامل ہے اور مستقبل میں بھی اسی طرح اپنا مقام برقرار رکھے گی ۔مولانا رومی سے غزلوں کا ایک ضخیم دیوان بھی یادگار ہے۔ جس کا نام آپ نے اپنے مرشد کے نام پر دیوان شمس تبریزی رکھا ہے۔ اس میں کوئی 60 ہزار اشعار ہیں۔ ان اشعار میں  کیف و مستی سوز و درد سلاست اور روانی بھی ہے اور موسیقیت بھی اس موسیقیت و نغمگی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے شعر کہتے وقت مولانا پر وجہ طاری ہے اور وہ جھوم جھوم کر اپنے جذبوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا کا یہ انداز قاری/ پڑھنے والے کو بھی بے حد متاثر کرتا ہے اور پڑھتے وقت اس پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔جذبے کا یہ خلوص بہت کم شاعروں کے کلام میں نظر اتا ہے۔ مولانا کے ملفوظات (کسی بزرگ کی باتیں جو ان کا کوئی خاص مرید پاس بیٹھ کر سنتا اور لکھتا رہتا ہے )کہ مجموعہ فیہ مافیہ کو بھی تصوف و عرفان کی دنیا میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔

     مثنوی کی تنصیف میں حسام الدین چلپی کو بہت دخل ہے اور درحقیقت یہ نا یاب کتاب انہی کی بدولت وجود میں آئی ہے۔ وہ مولانا کے مریدان خاص میں سے تھے اور مولانا اس قدر ان کی عزت کرتے تھے کہ یہاں ان کا ذکر کرتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ پیر طریقت اور استاد کامل کا ذکر ہے۔ مثنوی کے چھے دفتر ہیں ۔ بجز دفتر اول ہر دفتر ان کے نام سے مزین ہے ۔جب مثنوی کا پہلا دفتر تمام ہوا تو حسام الدین چلپی کی بیوی نے انتقال کیا۔ اس واقعہ سے ان کو اس قدر صدمہ ہوا کہ دو برس تک پریشان اور افسردہ رہے ۔چونکہ مثنوی کے سلسلے کے وہ بانی اور محرک تھے اس لیے مولانا بھی دو برس تک چپ رہے۔ چنانچہ دفتر دوم میں لکھتے ہیں۔

     

 مد  تے این مثنوی تاخیر شد

  مہلتے بایست تاخوں شیر شد

   عچوں ضیاء الحق حسام الدین عنان

    باز گردانیدر اوج  آسمان 

  

   چھٹا دفتر زیر تصنیف تھا کہ مولانا بیمار ہو گئے اور مثنوی کا سلسلہ یک لخت بند ہو گیا۔ مولانا کے صاجزاذے بہاولدین ولد نے ترک تصنیف کا سبب دریافت کیا ۔مولانا نے فرمایا کہ اب سفر آخرت درپیش ہے۔ یہ راز اب کسی اور کی زبان سے ادا ہوگا۔ چنانچہ اس سے عام لوگوں کو غلطی ہوئی کہ ساتواں دفتر مولانا کی تصنیف نہیں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا کو صحت ہوئی اور انہوں نے خود چھٹا دفتر مکمل کیا اور ساتواں بھی لکھا۔ مثنوی کو جس قدر شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ فارسی کی کسی کتاب کو آج تک نہیں ہوئی ۔صاحب مجمع الفصحا نے لکھا ہے کہ ایران میں چار کتابیں جس قدر مقبول ہوئیں کوئی کتاب نہیں ہوئی۔ شاہنامہ، گلستان، مثنوی مولانا روم ،دیوان حافظ۔ اگر ان چاروں کتابوں کا موازنہ کیا جائے تو مقبولیت کے لحاظ سے مثنوی کو ترجیح ہوگی۔ مقبولیت کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ علاوہ و فضلا نے مثنوی کے ساتھ جس قدر اعتناء کی اور کسی کتاب کے ساتھ نہیں کی ۔

   

مقبولیت کا  سبب


 کسی کتاب کی مقبولیت دو طریقوں سے ہوتی ہے کبھی تو یہ ہوتا ہے کہ سادگی اور صفائی اور عام دل آویزی کی وجہ سے پہلے وہ کتاب عوام میں پھیلتی ہے پھر رفتہ رفتہ خواص بھی اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور مقبول عام ہو جاتی ہے ۔کبھی یہ ہوتا ہے کہ کتاب عوام کی دسترس سے باہر ہوتی ہے۔ اس لیے اس پر صرف خواص کی نظر پڑتی ہے۔ خواص کی توجہ اور اعتناء  و تحسین کی وجہ سے عوام میں بھی چرچہ ہوتا ہے اور لوگ تقلیدا اس کے معترف اور معتقد ہوتے ہیں۔ مثنوی کی مقبولیت اس قسم کی ہے اور اس میں شعبہ نہیں کہ اس قسم کی مقبولیت اور کسی کتاب کو حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ فارسی فارسی زبان میں جس قدر کتابیں نظم یا نثر میں لکھی گئی ہیں کسی میں ایسے دقیق، نازک اور عظیم الشان مساہل نہیں مل سکتے جو مثنوی میں کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔فارسی پر موقف نہیں اس قسم کے نکات اور دفاتر کا عربی  تصنیفات میں بھی مشکل سے ہی پتہ لگتا ہے۔ اس لحاظ سے اگر علماء اور ارباب فن نے مثنوی کی طرف تمام اور کتابوں کی نسبت زیادہ توجہ کی۔

 

 مثنوی کی ترتیب

 

 مثنوی سے پہلے جو کتابیں اخلاق و تصوف میں لکھی گئیں ۔ان کا اندازہ یہ تھا کہ اخلاق و تصوف کے مختلف عنوان قائم کر کے اخلاقی حکایتیں لکھتے تھے اور ان سے نتائج پیدا کرتے تھے۔ منطق الطیر اور بوستان کا یہی اندازہ ہے ۔حدیقہ میں اکثر مساہل کو مستقل طور پر بھی بیان کیا ہے لیکن مثنوی کا یہ اندازہ نہیں۔ مثنوی میں کسی قسم کی ترتیب وتتویب نہیں۔ دفتروں  کی جو تقسیم ہے وہ خصوصیت مضمون کے لحاظ سے نہیں بلکہ جس طرح قران مجید کے پارے یا ایک شاعر کے متعدد دیوان ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ علمی اور اخلاقی تصنیفات کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ مستقل حیثیت سے مسائل علمی بیان کیے جائیں، دوسرے یہ کہ کوئی واقعہ اور افسانہ لکھا جائے اور علمی مسائل موقع بہ موقع اس کے ضمن میں آتے جائیں۔ دوسرا طریقہ اس لحاظ سے اختیار کیا جاتا ہے کہ جو لوگ روکھے پھیکے علمی مضامین پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کر سکتے وہ قصہ اور لطائف کی چاٹ سے اس طرف متوجہ ہوں۔ مولانا نے یہی دوسرا طریقہ پسند کیا۔


مثنوی مولانا روم کی خصوصیات اردو کے لیے ایک اہم سوال خود بھی پڑھے اور دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں ۔

نظیر اکبر آبادی Urdu notes click here

شکریہ

Post a Comment

0 Comments