حافظ شیرازی کی تصنیف
حافظ شیرازی Picture |
حافظ کی زندہ جاوید یادگار آپ کا دیوان ہے۔ جو ان کے شاگرد اور دوست محمد گل اندام نے مرتب کیا تھا دیوان غزلیات ،قصائد ،قطعات اور چند رباعیوں پر مشتمل ہے حافظ کی تمام شہرت اس کے دیوان کے باعث ہے۔ جس میں غزلیات، قصائد اور چند رباعیات ہیں ۔حافظ غزل گوئی میں ایران کا سب سے بڑا شاعر ہے ۔
زین العابدین موتمن نے لکھاہے
ترجمہ
اس عالی قدر شاعر کی شہرت کا راز یہ ہے کہ اس نے سعدی اور رومی کے مختلف اسالیب کی امیزش اپنی خاص فنکاری کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا امتزاج پیدا کیا۔ جس سے غزل گوئی کا ایک نیا اسلوب وجود میں ایا ۔جو اب تک بہت سے شعراء کے لیے مورد تقلید ہے۔
مقبول بیگ اکبر بدخشانی نے ادب نام ایران میں لکھا ہے۔
خواجہ کرمانی نے جذبہ اور فکر کے امتزاج سے جو جدت غزل میں پیدا کی ہے۔ اس پر حافظ نے کلام کی بنیاد رکھی۔ اس لحاظ سے گویا حافظ نے سبک عراقی کی پیروی کی ضائع بدائع جنہیں محسنات شاعری کہا جاتا ہے۔ سبک عراقی کا خاصہ ہے ۔حافظ نے بھی اپنے کلام کو محسنات شاعری سے زینت دی ہے۔ لیکن اپ نے ضائع بدائع سے کچھ اس انداز میں کام لیا ۔کہ جذبات واردات کے اظہار کو اس سے اور زیادہ مدد ملی۔ اس وجہ سے اثر کے جدید محقیقین نے حافظ کے سبک شعری کے لیے، سبک فارسی ،کی نئی اصطلاح وضع کی ہیں۔ جو صرف انہی کے لیے مخصوص ہیں۔
رضا زادہ شفق یوں رقم طراز ہے ۔
حافظ کی ساری استادی غزل کی استادی ہے عارفانہ غزل نے حافظ کے ہاتھوں میں پہنچ کر ایک طرف فصاحت و ملاحت کا درجہ کمال واصل کیا۔ تو دوسری طرف ایک مخصوص سادگی اختیار کی۔ حافظ نے اپنے اشعار میں مختصر سے الفاظ میں بڑے بڑے مطالب اور لطیف ترین معانی ادا کر دیے ہیں۔ شیرنی سادگی اور ایجاز حافظ کی غزل کی امتیازی خصوصیت ہیں۔ اور ان کی روح کی پاکیزگی اور حکمت ان کے ہر شعر سے ہویدا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ استاد کی غزلیں دل سے نکلی ہوئی ہیں۔ اور ہر غزل کہنے والے کے ضمیر کی لطیف تعبیر ہیں۔ یہ تو بالکل ہی واضح ہے کہ شاعر نے ہر طرح کی ظاہر پرستی سے اعراض کیا ہے حیلہ دتز ریر کے دام کو پارہ پارہ کر دیا ہے مذہب اور فرقوں کی ظاہری باتوں کو رد کر دیا ۔اور اپنے اشعار میں شیخ زاہد اور صوف جیسے ریاکاروں کی خوب خبر لی ہے۔
حافظ نے غزل میں ایک طرف شیخ عطار اور مولانا روم کی اتش نوائیوں سے استفادہ کیا ہے۔ تو دوسری طرف وہ خود اپنے ہمعصروں کے سبک سے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ بنیادی طور پر متقد مین کی پیروی کرتے ہوئے انہوں نے اپنے محاصرین میں خاص کر سعدی، خواجہ سلمان ،سادجی، ادحدی اور عماد فقیہ کے سبک کی پیروی کی ہے۔
اچھوتے تخیل کے سوا حافظ نے الفاظ کے استعمال اور معنی کی تعبیر کے سلسلے میں مخصوص الفاظ اور اصطلاحات بھی وضح کی ہیں۔ یہ خود ہی ان اصطلاحوں کے موجد ہیں یا اگر ان صطلاحوں سے پہلے کسی نے کام بھی لیا ہے۔ تو بہت کم۔ لیکن حافظ نے ان کو اپنے کلام میں کثرت کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ مثلا طاماعت، خرابات ،مفان، خرقہ، سالوس، پیر ،ہاتف پیر مفان ،رطل گراں، زنار، صومعہ، زاہد، شاہد، طلسمات، دیر, کنشت۔
(تاریخ ادیبات ایران از رضا زادہ شفق ص 413)
شبلی لکھتے ہیں
سب سے بڑی چیز جو حافظ کے کلام میں ہیں حسن بیان، خوبی داد شتگی اور لطافت ہے لیکن یہ ذوقی چیز ہے۔ جو کسی قاعدہ اور قانون کی پابند نہیں۔ فصاحت و بلاغت کے تمام اصول اس کے احاطہ سے عاجز ہیں۔ ایک مضمون ہے سو سو طرح سے لوگ کہتے ہیں۔ وہ بات نہیں پیدا ہوتی ۔ایک شخص اسی خیال کو معلوم نہیں کن لفظوں میں ادا کر دیتا ہے۔ کہ جادو بن جاتا ہے۔ یہ بات فارسی زبان میں خواجہ حافظ کے برابر کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔ ان کے مہمات مضمون (یعنی بڑے بڑے مضمون )یہ ہیں۔ قناعت گوشہ نشیبی دنیا سے اجتناب، واعظوں کی پردہ دری، رندی اور متی، یہ مضامین پانسو برس سے پامال ہوتے ہوئے ائے ہیں لیکن اج تک خواجہ حافظ کا جواب نہ ہو سکا ۔
غزل کی ایک خاص زبان ہے۔ جس میں نزاکت لطافت اور لوچ ہوتا ہے ۔اس قسم کی زبان کے لیے خیالات بھی خاص ہوتے ہیں۔ علمی یا فالسفیانہ مضامین اگر ادا کیے جائیں تو وہ رنگینی اور لطافت قائم نہیں رہ سکتی۔
خواجہ کا یہ خاص اعجاز ہے۔ کہ وہ ہر قسم کے علمی، اخلاقی، فالسفیانہ، مضامین ادا کرتے ہیں لیکن غزل کی لیے لطافت میں فرق نہیں انے پاتا ۔ہر قسم کے فالسفیانہ اور دقیق خیالات ان کی غزل میں ادا ہو کر رنگین اور لطیف بن جاتے ہیں۔ خواجہ صاحب سے پہلے غزل عشقیہ مضامین کے لیے مخصوص تھی۔ اس کے سوا اور کوئی خیال غزل میں ادا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ شبلی کا یہ خیال صحیح نہیں۔حافظ سے پہلے بھی غزل میں فالسفیانہ اخلاقی متصوفانہ اور علمی خیالات ادا ہوتے رہے تھے ۔مولف
حالانکہ غزل کا ہر شعر چونکہ علیحدہ ہوتا ہے اس لیے وہی ایک ایسی صنف ہے۔ جس میں ہر طرح کے مفرد اور بسیط خیالات ادا کیے جا سکتے ہیں ۔خواجہ صاحب نے ایک طرف تو غزل کو یہ وسعت دی کہ اخلاق، فلسفہ، تصوف پند و موعظت ،سیاست ہر قسم کے مضامین ادا کیے ۔دوسری طرف یہ خصوصیات ہاتھ سے نہ جانے پائی کہ غزل کی جو زبان ہے اور جس قسم کی لطافت، شیرینی اور رنگینی اس کے لیے درکار ہے سب باتیں قائم رہیں ۔
حافظ کے ذہن کی وسعت میں عصری حالات بالکل معمولی معلوم ہوتے ہیں۔ اس کی زندگی میں اس کا شہریار شیراز جس کے ساتھ اسے غالبا اتنی محبت تھی ۔جتنی دانتےکو فلورنس کے ساتھ۔ کئی دفعہ محاصروں کا شکار ہوا۔ اور پانچ چھ مرتبہ فتح کیا گیا ۔اس سے بھی زیادہ مرتبہ اس کے حکمران بدلتے رہے۔ کبھی ایک حاکم شیراز کو خون میں نہلا دیتا۔ کبھی دوسرا اسے عیش و عشرت کا اڈہ بنا لیتا کبھی کوئی حکمران اس میں زہد و اتقا کی پیوست کی فضا پیدا کر دیتا۔ حافظ نے یکے بعد دیگرے احکام و سلاطین کو اقتدار حاصل کرتے اور پھر صحرا کے خاک الود چہرے پر پڑے ہوئے برف کے گالوں کی مانند فنا ہوتے دیکھا ترحم انگیز المیہ واقعات، عشرف کدوں کی رونقیں، سلطنتوں کا انہدام، جنگوں کا شور شرابہ یہ بات سب کچھ اس نے دیکھا اور سنا ۔لیکن ان تمام واقعات کی صدائیں بازگشت اس کے کلام میں کہاں ہیں؟ تقریبا مفقود ہیں۔ کہیں کہیں کوئی اشارہ کنایہ ملتا ہے۔ جس کا حوالہ سمجھنے کے لیے ہمیں فاضل محققین کی ضرورت پیش اتی ہے ۔کوئی سیاسی واقعہ کسی حاکم کی تعریف میں ایک آدھ شعر کسی حکمران کی فتح یابی کی خوشی، کسی شاہی جرنیل کی بہادری۔ بس اس قسم کی چیزیں جو کوئی بھی عزت نفس رکھنے والا درباری شاعر لکھنے پر امادہ ہو جاتا ہے۔ اور بس ہم میں کچھ لوگ محسوس کریں گے کہ حافظ کے حالات عصر سے یہ بے عتنائی اس کے فالسفہ میں ایک ایسی خصوصیات پیدا کر دیتی ہے جو دانتے سے میں موجود نہیں۔ اطالیہ کا شاعر دانتے اپنے فالسفہ کی حدود میں محصور ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کے تصور کائنات پر اس کے خاص زمانے کی چھاپ لگی ہے اور جو شے اسے نہایت حقیقی معلوم ہوتی تھی ہمیں وہ محض حسین یا شاید خوفناک تصویر معلوم ہو ۔حافظ کی کھینچی ہوئی تصویر حیات میں بہت وسیع منظر نظر اتا ہے۔ بے شک اس کا فوری پیش منظر اس قدر واضح نہ ہو۔ یوں لگتا ہے جیسے اس کے ذہن کی انکھ جسے قدرت کی طرف سے حیرت انگیز بصریت عطا ہوئی تھی فکر کے ان خطوں میں جھانک چکی تھی۔ جسے ایک طویل مدت کے بعد آباد کرنا۔ بعد میں انے والے لوگوں کا مقدور تھا ۔جب ہم اس کو اس قسم کے افکار مرتب کرتے دیکھتے ہیں کہ کوئی مفنی ایسا نہیں جس کے نغمے کے ساتھ مست اور صوفی دونوں رقص کریں تو ہم اس کی یہ فرد گزاشت معاف کر دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اس نے اپنے زمانے اور اس میں بسنے والے فرد کی زندگی کو اپنی بنائی تصویر میں واضح طور پر پیش نہیں کیا۔
علامہ اقبال کی شاعری پر مفصل نوٹ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں شکریہ
اردو کے لیے ایک اہم سوال
حافظ شیرازی کی تصنیف پر بحث کریں ؟خود بھی پڑھے اور دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں ۔
Thanks ........ شکریہ
0 Comments
Thanks for comment