حافظ شیرازی کے کلام کی خصوصیات
Urdu paper Notes |
حافظ کی شاعری کا مرکزی نکتہ انسان کی طبیعیاتی، حسیاتی دنیاوی زندگی ہے ۔جسے وہ حسن و لطافت، خلوص اور پاکیزگی، ہنر مندی اور آسودگی عشق اور محبت سے بریز دیکھنا چاہتا ہے۔ حافظ اپنے معاشرے کی انفرادی اور اجتماعی حیات سے اپنی شاعری کا اغاز کرتا ہے۔ وہ اسی زندگی میں اور اس کے ارد گرد پھیلے ہوئے فطری مظاہر میں حسن کی جستجو کرتا ہے انسانوں کے جسم میں ان کے رہن سہن اور ان کے اعمال حرکات اور ان کے باہمی خلوت و جلوت کے رشتوں میں حافظ کے نزدیک وہ قوت اور تحریک جو انسانوں کو اخلاقی، روحانی اور حسیاتی طور سے سرور و انبساط بخشتی ہے۔ اور اس طرح ان کے باہمی تعلقات کو حسین اور پر لطف بناتی ہے۔ محبت ہے وہ محبت اور رفاقت کی فروانی اور شدت کا مطالبہ کرتا ہے۔ تمام وہ چیزیں، ادارے، افراد اور اخلاقی و فلسفیانہ تصورات اور عقیدے جو شعلہ عشق کی جدت کو کم کرتے ہیں۔ جو انسان سے انسان کی رفاقت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ یا اسے مستصض اور الودہ کرتے ہیں۔ حافظ کے نزدیک قبیح اور مذموم ہیں زہاد اور تارک دنیا صوفی، طہاع علما اور ایذارساں متحسب خود پرست ارباب اختیار اور ممسک امرا اور اس گروہ کے عاہد کیے ہوئے سخت گیر احکامات اور ریاکارانہ اخلاقی اصول اور قوانین جو معمولی انسانوں کو ان کی معمولی خوشیوں اور اسودگیوں سے محروم کرتے ہیں حافظ ان کا مخالف ہیں اور لوگوں سے کہتا ہے کہ اگر وہ ازاد اور خوش رہنا چاہتے ہیں تو مذکورہ بالا گروہ کے ناروا احکامات اور ان کی عائد کی ہوئی چند پابندیوں کو ہرگز قبول نہ کریں۔
حافظ کے کلام میں شراب اور میخانہ پیر مفاں اور ساقی، عشق و محبت کے جذبے کو ابھارنے احساس حسن اور نشاط حیات کو تیز کرنے اور بڑھانے کے وسیلے ہیں۔ حافظ انسان کو بے کیف، سطحی ریاکارانہ ،بے مقصد اور حیوانوں کی طرح پابند اور خود پرستانہ شعور کے نور سے عاری زندگی کی چار دیواری سے باہر کھینچ کر زیادہ ازاد زیادہ، متوازن اور مسرت سے بھری ہوئی رنگین فضاؤں میں لے جانا چاہتا ہے برگ گل خوش رنگ ،اور موسم بہار کی عطر بیز ہوائیں درختوں پر نئے نکلے ہوئے سبز پتے ،صوت ہزار اور رقص سرو، سربہ سجود بنفشہ اور لالے کے ارغوانی جام، نرگس کی چشم نگراں اور سوسن کی زبان، حافظ انہیں اور فطرت کے تمام دلکش مظاہر کو زندگی کے اس انسباط، لطف کا پیغامبر اور شریک بناتا ہے۔ جس کا وہ متلاشی ہے ۔
حافظ کی عشقیہ شاعری کی ایک ممتاز خصوصیات اس کی پاکیزگی ہیں۔ یہاں پاکیزہ محبت سے مراد وہ محبت نہیں ہے۔ جسے افلاطونی عشق کہا جاتا ہے۔ اور یہاں پاکیزگی محبت کی جنسی اور جسمانی نوعیت سے بالکل منقطع ہونے کے بعد محض ایک ذہنی ریاکاری بن جاتی ہے ایسا عشق حافظ کہ یہاں نہیں ملتا۔ حافظ اپنے خلوص، اپنی محبت کی جذباتی اور نفسیاتی سچائی اور اس کی گہری انسانیت سےپاکیزگی کی فضا پیدا کرتا ہے ۔
مثال کے طور پر دیکھیے۔
صبح دولت می دمد کو جام ہمچوں آفتاب
فرصتے زین یہ کجا باشد، بدہ جام شراب
خانہ بے تشویش و ساقی یارد مطرب بذلہ گو
موسم عیش است دودر ساغر و عہد شباب
یہاں حافظ اپنی خلوت خاص میں ہیں۔ عہد شباب ہے اور دور ساغر۔ شاہد مطرب کے نغمے اور رقص اور ساقی کے ناز و غمزے نے میر پرستوں کی انکھوں سے نیند اڑا دی ہے۔
لیکن عیش کی اس محفل کو جب حافظ خانہ بے تشویش اور جائے امن کہتا ہے ۔ساقی کے یار اور مطرب کے بزلہ گو ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور نغمے رقص اور سرور کے اس تمام ساز و سامان کو نزہت گاہ انس سے تعبیر کرتا ہے۔ تو کیا یہ واضح نہیں کر دیتا۔ کہ دنیا میں عیش اور مسرت کی اصل روح انسانوں کی رفاقت اور دوستی ہے۔ اور وہ چیز جس کے سبب سے ان کی مجلس جائے امن بنتی ہے۔ اور اس میں شادابی پیدا ہوتی ہے۔
حافظ نے اپنے زمانے کے سماج میں ظلم اور بے انصافی اور انسانی تعلقات میں خلق و موت کی کمی کا بار بار اتنی سچائی اور دردمندی سے ذکر کیا ہے۔ کہ اس کے ان مضامین کے اشعار صدیوں سے زبان زد عوام ہو گئے ہیں۔ چونکہ وہ سماجی حالات جو معاشرت میں یہ نزاع اور انحطاط پیدا کرتے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر صدیاں گزرنے کے بعد بھی باقی رہے ہیں۔ اس لیے وہ ایک زندہ سچائی کے حامل معلوم ہوتے ہیں۔
حافظ کے طنز و استہزا کی ایک خصوصیت یہ ہے ۔کہ اس کا لہجہ عموما نرم اور شریفانہ ہوتا ہے۔ وہ جن لوگوں پر طنز کرتا ہے۔ ان کی سچائی اور بھلائی کے دعووں اور ان کے عمل میں بہت دلچسپ طریقے سے فرق دکھاتا ہے ۔اور یہ ہمیشہ حقیقت پر مبنی ہوتا ہے ۔اکثر جن پر طعنہ زنی مقصود ہوتی ہے۔ ان پر وہ راست حملہ نہیں کرتا۔ بادی النظر میں معلوم یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسری بات کا ذکر کر رہا ہے اس شخص کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے۔ وہ تو ایک ضمنی بات ہے جسے وہ مسکرا کر کہتا ہے۔ اور پھر دوسری بات کی جانب مڑ جاتا ہے۔ حافظ نہ تو بے تحاشہ ٹھٹھا مار کر ہنستا ہے۔ اورنہ عام طور سے غصے میں آ کر بات کرتا ہے ۔اس کی نرمی اور خندہ زیر لب سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ جیسے اس کے فراخ دل میں ان لوگوں کے لیے بھی جگہ ہے جنہیں وہ غلط کار سمجھتا ہے۔ وہ جب کسی کا مذاق اڑاتا ہے تو انسانیت کی تحقیر نہیں کرتا۔ اس کی سنجیدگی اور ملائمت کی وجہ سے اس کے طنز میں بھی غیر معمولی حسن پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اس کا تاثیر بڑھا جاتا ہے ۔
حافظ کی طرح زہد بھی ایک طرح کی مستی ہے غرور اور خود پرستی کی انسان اس طرح اپنے کو اور دنیا کو دھوکہ دیتا ہے۔ کہ وہ اللہ کی عبادت کر رہا ہے۔ لیکن عام طور سے وہ ایسا کر کے دو باتوں کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اول تو یہ کہ لوگ اس کی عبادت گزاری اور تقدس سے مرعوب ہو کر اس کی برتری تسلیم کریں اور اس کی خواہشات تسلیم کریں۔ اس طرح زاہد جو مرتبہ اپنے نیک اعمال اور دوسروں کی بھلائی کر کے حاصل نہیں کر سکتا ۔ وہ اپنے زاہد و تقویٰ کا رعب ڈال کر حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔دوسرے یہ کہ زاہد سمجھنے لگتا ہے کہ محض عبادت کر کے اسے خدا کا قرب نصیب ہو جائے گا۔ اور وہ دوسرے معمولی انسانوں سے افضل و برتر ہو جائے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک درباری یا کوئی ماثحت ملازم یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ اپنے حاکم یا مالک کی زیادہ خوشامد اور تعریف کرے تو وہ اس کا مقرب خاص ہوگا۔ اور اسے زیادہ فائدہ پہنچے گا اس طرح ایسے شخص کی نظر انسانوں میں اور غالبا اخرت میں بھی افضلیت اور برتری حاصل کرنے کا جو صحیح اور عملی طریقہ ہے اس کی طرف سے ہٹ جاتی ہے وہ خلق خدا کی خدمت عام بھلائی کے کاموں کو دوسروں کے ساتھ مل جل کر انجام دینے اور اپنے دل میں دوسروں کی جانب مودت اور انکسار کا جذبہ پیدا کرنے کو اپنی عبادت کے مقابلے میں کم اہمیت دیتا ہے۔ وہ انسانوں سے قریب آنے کے بجائے ان سے دور ہو جاتا ہے ۔
حافظ کے کلام میں عشق و محبت کے ہمہ گیر جذبے کی سر خوشی اور معاشرت اور فطرت میں حسن و لطافت سے پیدا ہونے والے احساسات کے کیف و سرور کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔
اسی تصویر کا دوسرا رخ ہو وہ المناکی اور دل کو پگھلا دینے والی بے چینی ہے ۔جو شعر حافظ میں اس وقت پیدا ہوتی ہیں۔ جب مختلف اسباب کی بنا پر محبت اور دوستی یعنی نشاط حیات کے بنیادی محرکات کی راہیں اسے مسدود نظر اتی ہیں۔ اس کے فراق و محرومی کے نغمے بعض مرتبہ محض اس کی ذاتی کلفت و کوفت کا اظہار نہیں کرتے۔ بلکہ تمام مجبور اور محروم انسانوں کی غمزدہ روح کی پکار معلوم ہوتے ہیں ۔لیکن حافظ کی ان غم ناک نداؤں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ مجوسی کی فضا نہیں پیدا کر دیتی۔ مثلا اگر حافظ دوستوں کے بچھڑ جانے پر خون کے انسو روتا ہے۔ اس موضوع پر اس نے بار بار لکھا ہے تو اس کی یہ خود فشانی جذبہ دوستوں کی گراں مانگی کو بڑھاتی ہے۔ اور ہمارے دلوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہم جنس رفیقوں کا ساتھ اور دوست داری زندگی کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ہے۔ حافظ زندگی میں غم کے پہلو کو دلوں کو پژمردہ یا ارزردہ کرنے کے مقصد سے نہیں نمایاں کرتا۔ اس کا غم محبت کے سوز و ساز میں اضافہ کرتا ہے۔ اور اس کے ذریعے سے زندگی کی خوبصورت اور تابانی جیسے بڑھ جاتی ہے ۔
حافظ عشق و محبت کو انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی حیات بلکہ ساری کائنات کا سب سے گراں بہااصول سمجھتا ہے۔ اور اس کا یہ عقیدہ تصوف کے فالسفہ وحدت وجود کے مطابق تھا ۔اس فالسفے کی رو سے چونکہ تمام خلاق ذات الہی کی ہی مظہر ہیں۔ اس لیے خلق خدا سے محبت عشق الہی کے مترادف ہے۔ یہاں پر تصوف کے رموز و اسرار اور مجاز و حقیقت کی موشگافیوں پر بحث کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ البتہ یہ ایک واقعہ ہے کہ اس نظریہ حیات سے یہاں بہت سے لوگوں کے لیے دنیا اور اس کی زندگی سے فرار کی راہیں کھلیں وہاں بہت سے ازاد مردوں نے اس کی تشریح بالکل دوسرے ہنج سے کی۔ مخرالذکر نے اس فالسفے سے انسانوں کی مساوات اقوت اور ازادی اور رواداری کے اصول اخذ کیے اس کی اڑ لے کر ازاد ذہنوں نے اپنے عہد کے ریاکار اور خود پرست زہاد و مشانح اور بے انصافی اور ظلم کرنے والے امراء اور اہل اختیار پر سخت نکتہ چینی کی۔ اور ایک زیادہ منصفانہ صلح کل اور خوش و خرم سماج کا مطالبہ کیا ۔گوان موخرالذکر ہستیوں کی فکر میں بھی متضاد باتیں ملتی ہیں۔ لیکن ہمیں دراصل دیکھنا یہ چاہیے کہ انہوں نے کس طرح اور کس حد تک مروجہ مابعد الطبیعیاتی عقائد و نظریات کو انسانوں کی حقیقی مادی اور ذہنی زندگی کو ان عقائد سے علیحدہ کر کے دکھایا۔ اور اس زندگی کو معاشرتی اور انفرادی تجربات اور علم کی روشنی میں پرکھا ۔حافظ کی عظمت یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کے ما بعد الطبیعیاتی تصورات کو اپنی اور اپنی طرح کے دوسرے انسانوں کی انفرادی اور معاشرتی زندگی اور اس کے تجربات کا ماتحت بناتا ہے۔ ہندوستان کے از منہ وسطی کے تصوف اور بھگتی کے بڑے شاعروں بابا فرید شکر گنج، خسرو، تلسی، وارث شاہ، عبدالطیف وغیرہ کی بھی یہی خصوصیات ہیں۔
زندگی کے تجربے اور ماضی کے علم نے حافظ کو یہ بتایا تھا کہ محبت کی ہمہ گیری اور حسن و صداقت کی ضوفشانی کے لیے اس معاشرت کی فضا سازگار نہیں جس کا وہ فرد تھا ۔وہ خود کو ایسے ماحول میں گھرا ہوا محسوس کرتا تھا۔ جہاں عشق کے معنی ہی غم و اندوہ کے ہو گئے تھے۔ اور بیشتر انسان اگر مسرت و انسباط کی چند گھڑیاں بسر کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے تو وہ دولت مستعجل ہوتی تھی۔ معاشری مناقشات کے سبب سے لوگوں کی اکثریت زبردستی اور تنگ دستی کا شکار تھی اور یہ حالات اخلاقی زوال اور نفاق دریا پیدا کرتے تھے۔ زندگی ایک خارزار کی مانند تھی۔ اور وہ جو گلوں کی جستجو میں تھے ان کے پاؤں کانٹوں سے چھلنی کر دیے تھے ۔
تاصد ہزار خار نمی روید از زمیں
از گلبنے، گلے بگلستان نمی رسد
اردو کا ایک اہم سوال حافظ شیرازی کے کلام کی خصوصیات خود بھی پڑھے اور دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں ۔
شکریہ
0 Comments
Thanks for comment