https://www.newnewsandstory.online/?m=1 An artistic and intellectual review of the nature of poetry

An artistic and intellectual review of the nature of poetry

            تسخیر فطرت کا فنی اور فکری جائزہ 


نظم
نظم تسخیر فطرت 
حافظ شیرازی کے بارے میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
نظم تسخیر فطرت انسانی عظمتوں   اور

وجود ابلیس کی مقابلہ امیز حیثیت کے بارے میں حضرت علامہ اقبال کے افکار کا خلاصہ پیش کرتی ہے۔ ادم و ابلیس کا قصہ قران کریم کی صورت بقرہ اور بعض دوسری صورتوں میں بیان ہوا ہے ۔مگر اقبال نے ان واقعات کو نئے پیراے میں بیان کیا اور ان سے نئے نکتے اخذ کیے ہیں۔ اس نظم کے پانچ حصے ہیں۔

   پہلے حصے کا عنوان میلاد ادم ہے۔

 اس میں اقبال تخلیق ادم کو تخلیق کائنات کی غایت قرار دے رہے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ صاحب علم و عشق انسان کی ولادت کی خبر سے پوری کائنات میں ایک ارتعاش پیدا ہو گیا تھا اور انسانی کارناموں کو دیکھ کر صاف نظر ارہا ہے کہ یہ ارتعاش بلا وجہ نہ تھا ۔انسان واقعہ اشرف المخلوقات ہے اور اس کے کارنامے بے حد و حساب ہیں.

 

  اس نظم کا بنیادی ماخذ قصہ ادم ہے۔

  

   جو قران مجید میں نسبتا وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے اس کے مطابق اللہ تعالی نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں ۔فرشتوں نے کہا کیا تو ایسے کو نائب بنائے گا جو زمین میں فساد اور خون ریزی کرے گا اور  ہم تیری حمد و ثنا کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ اس بات کو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔

   

1   پھر فرشتوں سے فرمایا کہ جب میں انسان کو پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے اگے سجدے میں گر پڑنا. تمام فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے. اس نے غرور کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا .حق تعالی نے فرمایا جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اسے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا ؟کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ مجھ کو تو نے اگ سے بنایا.

2, اللہ تعالی نے ادم علیہ السلام سے فرمایا کہ تو اور تیری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ البتہ اس خاص درخت کے پاس مت جانا ورنہ تم اپنا نقصان کر بیٹھو گے.

3 پس شیطان نے انہیں بقایا بہکایا کہنے لگا اے ادم کیا میں تمہیں ہمیشگی کا درخت بتاؤں گا اور ایسا ملک جس میں کبھی زوال نہ ائے .پھر دونوں نے اس درخت سے کھا لیا. اللہ تعالی نے ان کی غلطی کو معاف کر دیا فرمایا کہ تم دونوں جنت سے اتر جاؤ.

4 اس طرح ادم شیطان کے بہکانے پر ایک فوق الفطرت عالم سے عالم فطرت میں اتار دیا گیا .جس کے نتیجے میں ادم اور اس کی اصل اعلی کے درمیان فطرت کا عظیم حجاب حائل ہو گیا. 

اللہ تعالی کی طرف سے حسب وعدہ جا بجا اور پے در پے انبیاء علیہ السلام مبعوث ہوتے رہے اور وہ کاروان انسانیت کی تاریخ راہوں میں ہدایت کے چراغ روشن کرتے رہے۔

 جنہیں شیطان اور اس کے ساتھی پھونکیں مارتے رہے۔ حق و باطل کی یہ عظیم کشمکش اور اویزش ابراہیم علیہ السلام اور نمرود موسی علیہ السلام اور فرعون اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو لہب وغیرہ کی صورت میں ہمیشہ جاری رہی اور تا قیامت جاری رہے گی۔

  انبیاء کی رسالت اور ہدایت کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ انسان اپنے اپ کو کائنات میں کھونا بیٹھے بلکہ وہ اپنی اصل اعلی یعنی خالق حقیقی کی طرف رجوع کریں ۔

  5 اس کی طرف رجوع اس لیے ضروری ہے کہ سر چشمہ ہدایت اس کی ذات ہے اور وہی ہدایت ہے اس سے دوری سرا سر موت ہے اور اس کی راہ میں اگر موت بھی ا جائے تو وہ موت نہیں بلکہ عین حیات ہے۔

   لیکن انسان نے عموما اپنے حواس پر تکیہ کیا اور وہ اپنے حواس سے ماورا حقیقت کا منکر ہو گیا اور اس طرح عالم فطرت میں کھو گیا۔

    بہت انسان اس حد تک فطرت میں کھو گئے اور اس کے ساتھ جی لگا بیٹھے کہ انہوں نے مظاہرہ فطرت کی پرستش شروع کر دی اور اگ سورج چاند ستاروں سمندروں اور پتھروں کو پوجنے لگے۔

     ان کے برعکس ہدایت یافتہ انسانوں کی روح اپنی اصل اعلی کی بازیابی کے لیے بے تاب رہی۔ چنانچہ وہ تمام حجابات کو چاک کرتے ہوئے اپنی منزل یعنی ذات کبریا کی طرف بڑھتے چلے گئے ۔

     

   مولانا جلال الدین رومی کے بقول

   ماز  فلک بر تریم و  زمالک افزوں تریم

    زیں دو  چرا نگزریم  منزل ما کبریا سیت 

  


  علامہ اقبال کی نظم تسخیر فطرت کا فنی اور فکری جائزہ


انسان کے لیے اپنی اصل اعلی تک رسائی حاصل کرنے کے لیے دام فطرت کو توڑنا شرط ہے۔ انسانی عمل کی یہی اعلی صورت جس کے لیے تفکر ضروری ہے دار اصل عبادت ہے اور انسان کو اسی واسطے یعنی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ تو گویا عبادت کشف حقیقت کا دوسرا نام ہے جس کے نتیجے میں انسان قرب الہی حاصل کر سکتا ہے اور جادوانی زندگی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ انسان کے شعور یا تحت شعور میں یہ خواہش ضرور موجود ہے کہ وہ کائنات میں  کسی جگہ اور کسی طرح جادوائی زندگی یا ملک، لایبلی، حاصل کر لے ۔

چنانچہ اسی مقصد کے لیے وہ اپنے علوم و فنون کی مدد سے کبھی سمندروں کی تہوں میں اور کبھی چاند کی گاروں میں کچھ تلاش کر رہا ہے ۔علامہ اقبال کے نزدیک زندگی اور پائندگی صرف قرب الہی میں ہے اور

کائنات میں کہیں نہیں ۔

   تو زندگی ہے پائندگی ہے

   باقی جو کچھ سب خاک بازی 

 

چنانچہ علامہ اقبال تسخیر فطرت اور قرب الہی کی راہ میں جذبہ عشق کو اہم ترین طاقت مانتے ہیں جس کی ایک ہی  جست سے زمین و اسمان کے فاصلے طے ہو جاتے ہیں ۔


عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام

 اس زمین و اسمان کو بیکران سمجھا تھا میں نے

 

 رومی کے نزدیک بھی انسان کا جسم خاکی اسی جذبہ سرشار کی طاقت سے اسمانوں پر پہنچا ۔

An artistic and intellectual review of the nature of poetry 

    جسم خاک ز  عشق بر افلاک 

    کوہ درد رقص امد دو چالاک شد 


علامہ اقبال نے اسرار خودی میں اس نظریے کو عنوان بنایا کہ جب انسانی خود ہی عشق سے مستحکم ہو جاتا ہے تو وہ کائنات کی ظاہری اور مخفی طاقتوں کو مسخر کر لیتا ہے۔

 تسخیر فطرت کا عظیم عمل عشق سے اس لیے ممکن ہو جاتا ہے کہ عشق حق در اصل خود حق ہوتا ہے لہذا ایک عظیم طاقت ہونے کی بنا پر ہر چیز پر مسلط اور محیط ہو جاتا ہے

 

     بقول علامہ اقبال

       از نگاہ عشق خار اشق بود

       عشق حق اخر سراپا حق بود

یہاں یہ نقطہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ عشق کا جذبہ مخلوقات میں سے تمام  و اکمل انسان کو ودیعت ہوتا ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالی نے اپنی روح پھونکی ۔چنانچہ انسان کی روح اپنی اصل اعلی یا روح  مطلق کی بازیابی کے لیے بیتاب  اور بے قرار رہتی ہے اور اپنے مقصد کی راہ سے ہر طرح کی رکاوٹوں کو دور کرتی ہے۔ اسی کوشش کا دوسرا نام تسخیر فطرت یا زندگی ہے۔


  قران مجید میں کئی مقامات پر انسان کے اگے فطرت کے                    

  مسخر ہونے کے اشارات ہیں .


مثلا فرمایا کہ سورج اور چاند تمہارے لیے مسخر کر دیے گئے ہیں۔

 یا جو کچھ اسمان اور زمین میں ہے سب تمہارے لیے مسخر کر دیا گیا ہے ۔


   سورہ رحمن میں فرمایا کہ

  اے جنوں انسانوں کے گروہ اگر تم سے ہو سکے تو اسمان و زمین کے کناروں کے باہر نکل جاؤ۔

 

  تم نہیں نکل سکتے مگر طاقت ( سلطان) کے ساتھ،

   اقبال نے سلطان کے معنی عشق کے لیے ہیں یعنی وہ زبردست طاقت جس سے انسان افلاک گنبد دربستہ سے باہر نکل سکتا ہے۔

    فرماتے ہیں

     لشکرے پیدا کن از سلطان عشق 

     جلوہ گر شو برسر  فرران  عشق 

     گفت اگر سلطان  ترا اید  بدست

      می تو اں افلاک را درہم شکت

گویا اقبال کے نزدیک نظام فطرت پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے عشق الہی کی قوت درکار ہے۔ اس میں شک نہیں کے انسان نے اپنے گرد و پیش کے فطری ماحول پر غلبہ پانے اور اپنی شخصیت کی نشوونما اور برتری کے لیے علوم طبیعت سے نمایاں کام لیا ہے اور حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیے ہیں ۔جن سے انسان فضاؤں کے سینے چیرتا ہوا ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔

 زمان و مکان کی وسعتوں کو محدود بنا رہا ہے اور فطرت کی بہت سی مذاحمتوں اور رکاوٹوں پر قابو پا رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ طبیعت کے ماہرین جب کائنات کی بے پایاں گہرائیوں اور حقائق اشیاء کی بے حساب وسعتوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ان کی عقل حیران اور نگاہ خیرا ہو کر رہ جاتی ہیں ۔چنانچہ ایک فہیم انسان کو ان تمام کوششوں اور کاوشوں کے باوجود اپنی کم مائیگی اور کوتاہ نظری کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ قران مجید جس نے سورج اور چاند کو انسان کا مسخر قرار دیا ان انسان کے اس احساس شکست کو یوں بیان فرماتا ہے۔

وہ ذات جس نے سات اسمان اوپر تلے پیدا کیے۔ خدا کی صفت میں تو کوئی خلل نہ دیکھے گا ۔سو تو پھر نگاہ ڈال کر دیکھ تجھے کوئی خلل نظر اتا ہے ؟پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھ.  نگاہ  ذلیل اور ترماندہ ہو کر تیری

An artistic and intellectual review of the nature of poetry


طرف لوٹ ائے گی۔

 کلام اقبال کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک انسانی حقیقت کا تصور دراصل روحانی بنیادوں پر استوار ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ انسان کی مادی زندگی کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ ان کے نزدیک روحانی اثرات ہی انسان کی مادی اور خارجی زندگی میں توازن اور تناسب پیدا کرتے ہیں۔ مادی اور معنوی طاقتوں کے صحیح امتزاج ہی سے انسان کی حقیقی دنیا معرض ظہور میں ا سکتی ہے ۔۔   فرمایا

     تیرے کی با عشق چوں ہمبر شود 

     نقش   بند۔   عالم    دیگر    شود

معراج مصطفی میں جسم خاکی کا یہ عروج درحقیقت روح کی غیر معمولی قوت اور اعجاز کا نتیجہ ہے۔ اقبال معراج سے یہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ یہ وسیع و عریض کائنات انسان کی زد میں ہے۔

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے

 کہ  عالم  بشریت کی زد  میں  ہے  گردوں

عقلی وسائل سے تسخیر فطرت کا نظام مسلم ہے مگر یہ عمل بہت ہی ترجیبی اور محدود ہے کیونکہ اس کے کمالات کی حد برق و بخارات ہے اور بس علامہ کے نزدیک اس عقلی نظام میں اب و گل کے طسم کو توڑنے کے لیے ذوق نگاح تو ضرور ہے لیکن وہ جرات زندانہ نہیں ہے جو ہونی چاہیے تھی۔ فرماتے ہیں۔

       عقل ہم خود را بدیں عالم زند 

       تا  طلسم  آب  و  گل رابشکند

     می شود ہر سنگررہ اور ادیب

     می شود برق و سحاب اور اخطیب

اس کے برعکس عشق کارنامے طبیعی طاقت کے کارناموں سے ماورا ہوتے ہیں۔ عشق بقول اقبال نان جویں سے خبر شکنی اور انگلی کے اشارے سے چاند کو دو نیم کرتا ہے۔ نمرود اور فرعون بغیر حرب و ضرب کے اس کے اگے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

    زور عشق از باد و خاک و اب نیست

    قوتش از سختی اعصاب نیست

    عشق بانان جویں خیبر کشا د

    عشق درندام مہ چا کے نہاد

    کلمہ نمرود بے ضرر بے شکست

    لشکر فرعون بے ہر بے شکست

     عشق سلطان است و برہان میں 

     ہر دو عالم عشق راز یر نگیں

بہرحال علامہ اقبال نے زہر بحث نظم کو معجزات عشق سے شروع اور کمالات عقل پر ختم کیا ہے۔ وہ انسانی زندگی کے ارتقا کے لیے دونوں جوہروں کو ضروری  گردانتے ہیں ۔ان کے نزدیک دونوں کے صحیح امتزاج سے زندگی کی مادی اور معنوی لحاظ سے تکمیل ہوتی ہے اور انسان کے لیے تسخیر فطرت کی راہیں کھلتی ہیں۔

خیز دنقش عالم دیگر بنہ

 عشق را با زیر کیامیزدہ

 ایم اے اردو فارسی کی تیاری کے لیے تسخیر فطرت کا فنی و فکری جائزہ

 علامہ اقبال کی نظم تسخیر فطرت

 Please share this post you're friends and Callas fellow thanks.

Post a Comment

0 Comments