https://www.newnewsandstory.online/?m=1 Armaghan Hijaz Write a detailed note on a review

Armaghan Hijaz Write a detailed note on a review

  

ارمغان حجاز ایک جائزہ


Armaghan Hijaz
Armaghan Hijaz


ارمغان حجاز یعنی حجاز کا تحفہ ۔یہ کتاب

علامہ اقبال کی وفات کے کوئی چھ ماہ بعد نومبر 1938 میں شائع ہوئی ۔اس سرزمین عرب کا نام ہے جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ واقعہ ہے ۔اقبال زندگی کے اخری ایک دو سالوں میں حج اور زیارت کے لیے حجاز کا سفر کرنے کے بے حد آرزو مند تھے۔ بیماری نے انہیں سفر سے باز رکھا مگر خیالی طور پر وہ ان سالوں میں گویا حجاز میں ہی رہے۔ ارمغان حجاز اس خیالی سفر کی تصویر پیش کرتی ہے ۔یہ سارا حصہ تقریبا دو بیتیوں پر مشتمل ہے اور اردو حصے سے تقریبا دو گنا ہے۔ دو بیتی یا رباعی دو دو شعروں میں اپنے دل کی کیفیت بیان کرنے کا نہایت موثر ذریعہ ہے ۔اقبال نے اس سے کام لیا ہے ۔اس کتاب کے پانچ حصے کیے گئے ہیں  ۔

اللہ تعالی کے حضور

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں 

مسلمان قوم سے

 عالم انسانی سے 

Armaghan Hijazاپنے دوستوں سے 

 

 دراصل کتاب کے پہلے دو حصوں کے مناسبت سے اس کا نام ارمغان حجاز رکھا گیا ہے۔ مگر ان دو حصوں میں بھی دوسرے حصہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  زیادہ قابل توجہ ہے۔

  پہلے حصہ حضور حق میں شاعر اپنے اپ کو حرم کعبہ میں خیال کرتا ہے۔ حرم کعبہ دعاؤں کی قبولیت کا مقام ہے۔ شاعر یہاں خدا سے گلے شکوے کرتا ہے۔ مسلمانوں کی بہتری کے لیے دعائیں مانگتا ہے اور ایک دو اپنی ارزویں بھی پیش کرتا ہے ۔اسے یہ گلہ ہے کہ مسلمان زوال اور پستی کے گڑھے سے باہر کیوں نہیں نکلتے؟ درد مند اور قابل لوگ دنیا میں ذلیل اور خوار کیوں کیے جا رہے ہیں؟ انسان با لعموم خود شناس کیوں نہیں ہو رہے ہیں اور دنیا کے محنت کشوں کی حالت بہتر کیوں نہیں ہو رہی؟ اقبال دعا فرماتے ہیں کہ خدایا موجودہ مسلمانوں میں سے ایک ایسی غیرت مند قوم پیدا فرما جو جلد ہی اپنی پستیوں کا ازالہ کرے اور دین اسلام کے مرتبے کے شایان نظر ائے۔ وہ برصغیر کے مسلمانوں کی معاشی اور سیاسی غلامی پر ایک بار پھر اظہار افسوس کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو ایسا بے عمل کر رکھا ہے کہ وہ دین و شریعت کے احکام کو ایک بوجھ جاننےلگے ہیں اور اگر ان احکام کو بجا بھی لائیں تو ان کی روح سے دور رہتے ہیں۔

   ایک دو بیتی میں اقبال مسلمانوں کی روش کی جو شکایت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ میری سادہ لوحی ہے کہ میں ایک ایسی قوم کی بیداری اور ترقی کا خواب دیکھ رہا ہوں جس کے علماء بھی علم اور یقین کی دولت سے محروم ہو چکے ہیں۔ اقبال کی ذاتی دعا یہ ہے کہ  قیامت کے دن اس کے اعمال کا حساب کتاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ لیا جائے۔ اور اسے اس مذامت سے بچایا جائے۔ وہ اس بات کا بھی ارزو مند ہے کہ اس کے خیالات سے خواص کو مہرہ ملے اور وہ عوام کی خاطر اس کے خیالات کو اسان صورت میں پیش کرے کیونکہ بعض باتوں کو عوام شاید براہ راست نہ سمجھ سکیں اور ان کا غلط مفہوم لے لیں ۔

   وہ مسلمانوں اور دنیا کے کمزور انسانوں کی بیداری کے لیے اپنی شاعری کی مزید توانائی کا بھی طالب ہے۔ ان ارزوں کے اظہار کے بعد شاعر عالم خیال میں مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کو روانہ ہوتا ہے تاکہ وہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس روزے پر حاضری دے سکے ۔اخری دو بیتی یوں ہے۔

    میرا بدن تو تھک کے چور ہو گیا ۔مگر روح اس شہر کی ارزومند ہے۔ یہاں مکہ مکرمہ سے ہو کر پہنچا کرتے ہیں۔ خدایا تو اپنے حرم پاک میں اپنے خاص بندوں کو دیکھتا رہ مگر مجھے تو اب دوست کی یاد ستا رہی ہے۔

     حضور صلی اللہ علیہ وسلم رسالت والا حصہ ارمغان حجاز کی جان کہا جا سکتا ہے۔ عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم شاعر اس حصے میں کوئی شکوہ و شکایت نہیں کرتا اور اس کا لہجہ سراپا ادب اور احترام بنا ہوا ہے۔ پہلے وہ اپنے خیالی سفر کا ذکر کرتا ہے کہ

     

 جیسے کوئی پرندہ شام کے وقت اپنے اشیانے کی راہ لیتا ہے۔ میں بھی اس بڑھاپے میں عاشقانہ سوز و مستی کے ساتھ اس طرح یثرب شریف کا مسافر بنا ہوا ہوں۔

 

 میں نے سویرے اپنی اونٹنی سے کہا کہ چونکہ تیرا سوار بیمار اور بوڑھا ہے۔ اس لیے اہستہ اہستہ چل مگر وہ اس مست طریقے سے بھاگ رہی ہے گویا اس کے پاؤں کے نیچے کی ریت ریشم بن گئی ہے۔ ساربان نے اس کی لگام پکڑنا چاہی مگر میں نے منع کر دیا۔ مجھے معلوم ہو گیا کہ وہ بھی میری طرح عشق کی بصریت رکھتی ہے وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر بھاگ رہی ہے ۔میرا ضمیر روشن ہے۔ وہ اس اونٹنی کی نگاہ سے ظاہر ہو رہی ہے۔

Armaghan Hijaz

ساربانوں کے سلار کو میرے اشعار نے متوجہ کر ہی دیا۔ کہنے لگا یہ کوئی غیر عرب ہے اس  کی لے عربوں سے نہیں ملتی۔ مگر شعر ایسے کہہ رہا ہے کہ ان کی تاثیر سے صحراؤں میں خنکی اتی جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں عراق کے شعر پڑھ رہا ہوں اور کبھی جامی کے، عربوں کے سر سے میں ناواقف ہوں مگر ساربان کی حدی پڑھنے میں، میں بھی شامل ہوں۔

اوپر کی عبارت میں اقبال کی چند رباعیوں کا ازاد ترجمہ پیش کیا گیا۔ حدی ،اونٹ والوں کے نغمے کو کہتے ہیں۔ عراقی  ساتویں ہجری اور جامن نویں صدی ہجری کے فارسی شاعر ہیں ۔جامی نے بھی اپنے اشعار میں اونٹنی کے سوز و ساز اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مست ہونے کا ذکر کیا ہے۔

 اب اقبال عالم خیال میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گنبد خضرا پر حاضری دیتے ہیں اور اپنی عرض شروع کرتے ہیں کہ 

 یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدد فرمائیں کہ مسلمان کا سوز و سازِ جاتا رہا ۔اور مایوسی میں اس کا دل اہ و فغان کر رہا ہے۔ مجھے اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق کی تاثیر نے یہ موثر اواز دی۔ مگر رونا اس بات کا ہے کہ برصغیر میں عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قحط ہے۔ یہاں کے مسلمان غلامی اور پستی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم پر رحم فرمائیں ہم جیسے بدبخت اور مظلوم مسلمان دنیا میں کم ہوں۔ میری زبان اور بیان پر صغیر کے مسلمانوں کی بدبختی بیان کرنے سے قاصر ہے مگر میرے ظاہر اور باطنی احساسات اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر عیاں ہیں ۔میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہاں کے مسلمانوں کی گزشتہ 200 سالہ تاریخ کو یاد کر کے میرا دل لکڑی کے اس کندے کی طرح ہو گیا ہے جس پر قصاب گوشت کاٹتے رہتے ہیں ۔یہاں کے مسلمانوں کے حالات بدلتے نہیں۔

  انہیں ابھی کوئی راہبر و رہنما بھی نہیں ملا ۔ان کی زندگی بے تاب اور حرکت و عمل سے مرحوم ہے ۔اپنی تلواروں کو انہوں نے نیاموں میں ڈال دیا اور قران مجید کو طاق نیسان پر رکھ دیا ۔ہم غیر اللہ کے سامنے جھک رہے ہیں ۔اتش پرستوں کی طرح ہم غیر اللہ کے سامنے بھجن گا رہے ہیں۔ میں دوسروں کا شکوہ کیا کروں ۔اپنا شکوہ کر رہا ہوں کہ میں اپ سے کوئی نسبت رکھنے کا اہل نہ تھا،،

   اقبال فرماتے ہیں کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غیر معمولی قوت دے رکھی ہے ۔یہ قوت ان کی شاعری میں بھی دیکھی جا سکتی ہے مگر اکثر مسلمانوں کو ان کے تصور خودی کی قدر ہے نہ ان کے شعر کی۔ دنیا انہیں ایک عام شاعر سمجھتے ہیں۔ اور ان سے غزل اور  تاریخ وفات والے اشعار لکھنے کی فرمائش کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ انہیں فالسفیوں، ملاؤں اور صوفیوں کی صحبت سے کوئی لطف نہیں ملا۔ فالسفیانہ بحثیں نری سردردی ہیں جبکہ معاصر ملاؤں اور صوفیوں کی بے عمل باتوں سے دل میں کوئی سوزو گزار پیدا نہیں ہوتا۔ فرماتے ہیں کہ وہ اپنے افکار و سوز دل کے اعتبار سے اپنے اپ کو ساری دنیا میں تنہا پاتے ہیں۔ اس لیے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے احساسات عرض کر رہے ہیں کہ اس بے سوز زمانے میں ان کے دن بڑی مشکل سے کٹ رہے ہیں ۔فرماتے ہیں انہیں جو کچھ ملا وہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملا مگر اکثر مسلمان عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت سے غافل ہیں۔

ابھی میری مٹی میں چنگاریاں موجود ہیں ابھی میرے سینے میں اہ سحر  گاہی کی ہمت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر اپنی ایک تجلی سے نوازیں تو دیکھیں گے کہ بڑھاپے کے باوجود ابھی مجھ میں تاب نظر موجود ہے۔ اپ کے فیض سے ہی مجھے یہ سوز و ساز ملا۔ اپ کے اب زمزم نےہی میرے انگور کے درخت شاداب کر رکھے ہیں۔ کیونکہ میرے سینے میں موجود دل اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رازدار ہے اس لیے میری درویشی کے سامنے جمشید کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

 یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری خاک سے ایک گلستان وجود میں ا جائے اور میرے انسو لالہ کے پھول کی لالی میں مل جائیں۔ اگر میں حضرت علی کی شمشیر اٹھانے کا اہل نہیں تو مجھے حضرت علی کی تلوار جیسی تیز نگاہ تو مل جائے۔

  سعودی عرب میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے کے سامنے کوئی غیر شرعی حرکت نہیں کی جا سکتی۔  مثلا روزہ پاک کے سامنے سجدہ تعظیمی کرنا، غیر معمولی جھکنا اور جالیوں کو بوسہ دینا ممنوع ہے۔ ارمغان حجاز کی تصنیف کے وقت سعودی عرب کے حاکم ملک عبدالعزیز تھے۔ اقبال ایسا محسوس کرتے ہیں کہ خیال کے عالم میں وہ روزہ پاک پر حاضر ہیں اور محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہیں نے پیشانی زمین پر رکھ دی ہے اور اتنے میں ملک عبدالعزیز وہاں آ نکلتے ہیں اور اس حرکت پر اعتراض کرتے ہیں۔ شاعر نے اس اعتراض کا جواب یہ سوچ کر رکھا تھا ۔

  ملک عبدالعزیز اپ بھی دوست کی محبت کی شراب اس طرح پی لیتے ہیں کہ ہمیشہ اسی کے ساتھ رہتے۔ میں سجدہ نہیں کر رہا ہوں اپنی پلکوں سے دوست کے دروازے کی گرد جھاڑ رہا ہوں کیا یہ بھی قابل اعتراض حافظ شیرازی کی تصنیف پر نوٹ لکھیں یہاں کلک کریں ہے؟

   اس ایمان افروز  حصے کی ایک مزید رباعی کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

   

    یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے یہی اغاز اور انجام چاہیے کہ اپ کے کوچہ محبت کی ایک بات کر لینے کا سوز حاصل کر لوں ۔میں تو اس جرات مند عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت کا عاشق ہوں جو خدائے تعالی سے بھی کہہ دے کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کافی ہیں۔

    

     ارمغان حجاز کے تیسرے حصے کا عنوان حضور ملت ہے۔ یہ کافی طویل باب ہے اور اس کی کئی ذیلی سرخیاں ہیں۔ جیسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلو خودی ،صوفی و ملا، رومی، عرب شاعروں سے خلافت و ملوکیت مسلمان عورتوں سے عصر حاضر اور  تعلیم فرماتے ہیں کہ دنیا کے مسلمانوں کو اس وقت ترک اور مصری مسلمانوں کی ترقی سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ان کی خودی بیدار ہوئی تو وہ ممالک طاقتور بننے لگے اور چند سالوں میں کہاں سے کہاں جا پہنچے ۔اقبال صوفیاء اور علماء کا احترام کرتے تھے۔ مگر اکثر معاصر صوفیوں اور ملاؤں میں انہوں نے بے عملی ہی دیکھی۔ اس لیے انہوں نے ان پر  نکتہ چینی بھی کی ہے۔ کہتے ہیں کہ صوفیوں اور ملاؤں کو دنیاوی پستی کی کوئی پرواہ نہیں۔ مغربی استعمار دین و ایمان کی چولیں ہلا رہا ہے مگر یہ لوگ حاکموں کی ہاں میں ہاں ملاتے جا رہے ہیں اور یا الہی اخرت اچھی ہو کی رٹ لگائے جا رہے ہیں۔ ان کی تاویلات سے اللہ کی پناہ۔  وہ ذرا ذرا سے اختلافات پر لوگوں کو جہنم رسید کر رہے ہیں۔ مگر غلامی کے جہنم سے انہیں کوئی چڑ نہیں۔

     اقبال نے یہاں ایک بار پھر رومی کو پڑھنے کی ضرورت بتائی ہے۔ عرب شاعروں سے اقبال فرماتے ہیں کہ ان کی طرح قران مجید کی تعلیمات کے سمندر میں غوطہ زنی کریں اور مسلمانوں کو عروج اور ترقی کی دعوت دیں۔ فرماتے ہیں کہ قران مجید کی برکت سے میں نے برصغیر کے مسلمانوں کے 130 سالہ دور زوال کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اقبال نے یہاں سلطان ڈیپو کی شہادت سے شروع ہونے والے دور زوال کی طرف اشارہ کیا ہے۔

      خلافت و ملوکیت کے عنوان پر اقبال نے فرمایا ہے کہ خلفائے راشدین کے دور سے بعد کی خلافت ایک طرح کی ملوکیت اور بادشاہت رہی ہے۔

       فرماتے ہیں کہ دین اسلام کی بنیادی خصوصیات یہ ہیں کہ اس میں ملوکیت اور ڈکٹیٹر شپ کی کوئی گنجائش نہیں۔ مسلمان عورتوں سے یہاں بھی اقبال نے تقریبا وہی باتیں کی ہیں جو پہلے مثنوی رموز بے خودی  میں کر چکے تھے۔ یہاں اقبال نے اپنے بعض تعلیمی نظریات بھی پیش کیے ہیں۔ اقبال صحیح تربیت دینے ادب و اداب سکھانے، دینی اور فنی تعلیم اور اخلاقی اوصاف سکھانے پر زور دیتے ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے نقطہ نظر سے تعلیم وہی اچھی ہے جو

        خودی کی نشوونما کے لیے سازگار ہو اور جو طالب علموں کو ازادانہ سوچنے میں مدد دے۔

         ارمغان حجاز کا چوتھا حصہ حضور عالم انسانی ہے۔ اس حصے میں اقبال صرف مسلمانوں سے نہیں پوری عالمی برادری سے مخاطب ہیں۔ اقبال کے بارے میں یہ نکتہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ پاکستان اور برصغیر کے مسلمانوں کے قومی شاعر ہیں ،لیکن اب پورا عالم اسلام ان کو اپنا قومی شاعر مان رہا ہے۔ مگر اس کے ساتھ وہ عالمی مفکر اور شاعر بھی ہیں ۔عام انسانوں کے لیے اقبال نے مندرجہ ذیل امور خاص پر پیش نظر رکھے ہیں۔ جو خود شناسی، سخت کوشی، احترام انسانی، رواداری، حفاظت دل، انسانی تقدیر کی ازادی کے حدود اور ناری و خاکی ابلیسوں کی پہچان ۔اقبال کا مطالعہ کرنے والوں کو علامہ مرحوم کے قائم کیے عنوانوں سے ہی ان کے افکار کا پتہ چل جاتا ہے۔ سخت کوشش اور تکلیف برداشت کرنے کے بارے میں اقبال فرماتے ہیں کہ

          زمانے کی تکلیف کا گلہ چھوڑ دو۔ جس نے تکلیف  نااٹھائی ہو وہ نہ خالص اور کچا رہتا ہے۔ تم دیکھتے نہیں کہ جن پتھروں پر ابشارو اور سوتوں کا پانی بہتا رہے وہ کس قدر صاف اور خوبصورت ہو جاتے ہیں۔،،

           انسانی تقدیر کی ازادی کے بارے میں ایک رباعی کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

           

 اٹلی کے شہر روم میں ایک بڈھے پادری نے مجھ سے کہا تھا کہ میرا ایک لطیف نکتہ یاد کر لو۔ہر قوم اپنی موت کا سامان خود فراہم کر دیتی ہے۔ چنانچہ تجھے تقدیر کے مسئلے نے مار ڈالا اور ہمیں تدبیر کے نظریے نے۔"

 

اگر اقبال نے واقعہ کسی بڈھے پادری سے بات کی ہو۔ تو یہ 1931 عیسوی کا واقعہ ہوگا ۔جب اپ اٹلی گئے تھے۔ اقبال کا مدعا یہ ہے کہ مشرقی قومیں خصوصا مسلمان اپنے اپ کو تقدیر کا پابند مانتے ہیں۔ جبکہ مسیحی اور دوسری مغربی قومیں اپنی تقدیر کو بالکل ازاد ماننے لگی ہیں ۔یہ دونوں باتیں صحیح نہیں ۔انسان بعض کاموں میں مجبور ہے اور بعض میں آزاد ۔انسان کو چاہیے کہ کوشش کرے اور نتیجہ خدا پر چھوڑ دے ۔خاکی اور ناری شیطان والا حصہ بڑا دلچسپ ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ اس زمانے کے کمزور ایمان والے انسانوں کی گمراہی کے لیے خاکی شیطان کافی ہے۔ ناری ابلیس اج بیکار بیٹھا ہوا ہے اور اس کی اولاد یعنی شیاطین بھی ارام فرمائیں۔ نئی تہذیب پر اس طرح کا ایک طنز اردو اشعار  میں بھی کیا تھا کہ

 تری  حریف ہے یا رب سیاست افرنگ 

 مگر ہے اس کے پجاری فقط امیر و رئیس

  بنایا ایک ہی ابلیس اگ سے تو نے

   بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس 

   

ارمغان حجاز کا پانچواں یا اخری باپ،  بہ یاران طریق، کے عنوان سے ہیں۔ اقبال نے کبھی کبھی اپنے بعض ارادات مند ملاقاتیوں کو دوست کہا اور ان کی موجودگی پر خوشی کا اظہار کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے اور ان کے اہم خیال دوست جو ان کا ذوق و شوق رکھنے والے ہوں نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس حصے میں ایک دو بتی کا ترجمہ یوں ہے۔

 میں جب دنیا سے چلا تو سب نے یہی کہا کہ ہمارا اشنا اور دوست تھا۔ لیکن میری زندگی میں کسی نے نہ جانا کہ اس مسافر نے کیا کہا، کس کو کہا اور اور تھا کون؟ اس کتاب میں" در حضور رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم" کے عنوان سے ایک رباعی مفہوم کی ہے کہ میں ساری زندگی اپنے اپ کو تنہا پاتا ہوں کیونکہ رازدار دوستوں کے وجود سے میں مرحوم ہوں مگر میں عجیب معصوم انداز میں اپنی تنہائی کو فریب دیتا ہوں اور اپنے دکھ درد اپنے دل سے بیان کرتا ہوں ۔

 اس سے واضح ہے کہ، یاران طریق، ایک وسیع اصطلاح  ہے جس میں اقبال کے اشنا ان کے اہم پیشہ وکیل شاعر، ادیب ،اور ان کے سب دوست شامل ہیں۔ اس حصے کی اہم باتوں کو مندرجہ ذیل عنوانات دیے جا سکتے ہیں۔

 

 شاعر  کی شخصیت بے نیازی اور غیرت ،عشق رسول، حقیقی عبادت، خودی، اقبال اپنے اپ کو قلندر کہتے ہیں۔ قلندر، ازاد طریقے کے درویشوں کا ایک گروہ رہا ہے۔ اس حصے کے اغاز اور اختتام دونوں میں اقبال نے اپنی قلندری اور بے نیازی کا ذکر کیا ہے۔ وہ دوسروں کو بھی ازاد  روش والا دیکھنے کے آرزومند ہے۔ فرماتے ہیں کہ موت سے بے خوفی اور دولت سے بے نیازی دل کی زندگی کے اصول ہیں ۔فرماتے ہیں کہ فالسفہ منطق سے اب انہیں تشفی نہیں ہو رہی ہے ۔ان بحثوں سے فارسی شاعروں کہ حکیمانہ شعر کہیں بہتر ہیں ۔ارمغان حجاز کے پانچوں بابوں کے سر نامے ہیں جن میں ایک ایک شعر ہے۔ یا ایک ایک دو بیتی۔ اس حصے کے سر نامے والی، دو بتی کو اقبال کے مزار کی ایک بیرونی دیوار پر لکھ دیا گیا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ یوں ہے۔

 

 دوستو اؤ کہ مسلمان قوم کی بگڑی بنا دیں اور زندگی کا جوا مردوں کی طرح کھیل گزریں۔  او شہر کی بڑی مسجد میں ایسا روئیں کہ ملا کے سینے میں بھی دل پسیج جائے۔

ایم اے اردو اقبالیات اور فارسی کے لیے ایک اہم سوال ارمغان حجاز ایک جائزہ خود بھی پڑھے اور دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں ۔

شکریہ 

     

Post a Comment

0 Comments