غزلیات اقبال کی خصوصیات
Ghazliat Iqbal |
اقبال کا پہلا مجموعہ کلام ،بانگ درا ،1924 عیسوی میں شائع ہوا ۔جس میں اقبال نے غزل کے تین دور متعین کیے ہیں یعنی آغاز 1905 عیسوی تک کا دور پہلا دور ہے۔ 1905 عیسوی سے 1908 عیسوی تک غزل کا دوسرا دور ہے اور 1908 عیسوی سے بعد کا دور تیسرا دور ہے ۔بال جبرائیل کی غزلیات علامہ اقبال کی غزل کا چوتھا اور اخری دور تصور کی جاتی ہے ۔چونکہ بال جبرائیل اور ضرب الکلیم کی غزلیات میں فنی اور معنوی اعتبار سے کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔ الہذا دونوں مجموعوں کی غزلیات چوتھے دور کی غزلیات شمار کی جاتی ہیں ۔
حافظ شیرازی کے بارے میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
اقبال کی غزل کا پہلا دور اغاز سے 1905 عیسوی تک کا دور ہے اس دور میں موضوعات کے اعتبار سے اقبال کی غزل روایتی مضامین یعنی تصوف اخلاق حسن و عشق وعدہ محبوب اور شوق دیدار کی غزل ہے۔ اس زمانے میں داغ دہلوی اور امیر منائی کی غزلوں کا بہت چرچہ تھا۔ دور و نزدیک سے نئے غزل گو شعراء داغ سے اپنی غزلوں پر اصلاح لیتے تھے ۔اقبال نے بھی داغ کی باقاعدہ شاگردی اختیار کی۔ مگر جلد ہی بقول داغ اقبال کے کلام میں اصلاح کی گنجائش نہ رہی ۔اس زمانے میں اقبال کی غزل پر فارسی بھی غالب ہے مگر داغ کی پیروی میں جو غزلیں اقبال نے کہی ہیں ان میں زبان اور روز مرہ کے
سادگی پائی جاتی ہے ۔موضوعات عاشقانہ ہیں اور ان میں تغزل کی شوخی بھی ہے ۔ان اشعار پر داغ کا رنگ نمایاں نظر اتا ہے۔
بری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تیری انکھ مستی میں ہشیار کیا تھی
تامل تو تھا ان کو انے میں قاصد
مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی؟
زبان سادہ اور روزمرہ کے مطابق ہے مگر اسی دور میں غزلوں میں فارسی تراکیب استعمال بھی بکثرت ملتا ہے اور غزل پر فارسی تراکیب کا اثر نظر اتا ہے ۔گلزار ہست و بود، ہستی نہ پائیدار ، نقش کف، پائے یار، دام تمنا، پرستش اعمال ،وقت راحیل کارواں اور جنبش مشرگان اور اس قسم کی دوسری فارسی تراکیب اس کی غزل میں عام ملتی ہیں ۔اسلوب کے اعتبار سے اقبال کے اشعار مطلع اور مقطع کی پابندی سے ازاد نظر اتے ہیں ۔مضامین کے اعتبار سے اس دور کی غزل بے شک روایتی مضامین کی حامل غزل ہے۔
لیکن اس کے باوجود اسی دور میں کہیں کہیں مستقبل کے
اقبال کی جھلک بھی نظر اتی ہے۔ مثلا
کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
مضامین اور سلوک کے اعتبار سے اقبال کی پہلے دور کی غزل کا تجزیہ مختصر الفاظ میں یوں کیا جا سکتا ہے کہ
غزل میں روایتی مضامین مثلا حسن و عشق اور تصوف وغیرہ کا ذکر ملتا ہے البتہ کہیں کہیں مستقبل کے اقبال میں فلسفیانہ رنگ بھی اپنی جھلک دکھاتا ہے ۔
فارسی تراکیب بھی موجود ہے لیکن داغ کےرنگ میں سادہ اور رواں اشعار بھی ملتے ہیں۔
غزل کے روایتی اسلوب میں بھی اقبال نے تبدیلیاں کی ہیں اور اکثر اشعار میں مطلع اور مقطع کا التزام موجود نہیں ہے۔ ان باتوں سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ پہلے دور تک غزل میں اقبال کا کوئی واضح انداز نظر متعین نہیں ہوا تھا۔
اقبال کی غزل کا دوسرا دور قیام یورپ 1905 عیسوی سے 1908 عیسوی کا زمانہ ہے اور یہ زمانہ ہے کہ بعض وجوہات کی بنا پر اقبال شعر و سخن کو ترک کرنے کا فیصلہ کر رہے تھے ،لیکن بعد میں ایسا نہیں کیا یورپ کے قیام کے دوران اقبال کے فکری مزاج میں تبدیلی واقع ہوئی ۔نئے معاشرے نے زندگی سے متعلق علامہ کے نظریات کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ قدرتی طور پر اس کا اثر علامہ کی شاعری پر بھی پڑا ۔چنانچہ دوسرے دور کی غزلوں میں طنز کی ہلکی سی لہر بھی پیدا ہوئی۔ جو اس معاشرے کو بنظر غائر دیکھنے کا نتیجہ تھی ۔اس دور کی غزلوں میں عاشقانہ رسمی مضامین کی جگہ نئے مضامین نے لے لی یعنی اب غزل عشق کو محبت، حسن و جمال اور اخلاق کے تذکرے سے نکل کر عصری سیاست کے دائرے میں داخل ہو گئی ۔مثلا یہ اشعار دیکھیے
دیار مغرب کے رہن والو
خدا کی بستی دکان نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گیا کمال وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوک نشر سے جو چھیڑے
زبان کے اعتبار سے پہلے دور کی غزل سے کتنے مختلف ہیں اور اسی دور سے اقبال ایک پیغام پیغامبر شاعر کی حیثیت سے ہمارے سامنے انا شروع ہو جاتے ہیں۔ غزل کے مضامین نئے ہیں اور زبان میں بھی پہلے دور کی سادگی کے بجائے فارسی زبان و تراکیب کی طرف شاعر مائل ہو چکا ہے۔
اقبال کی غزل کا تیسرا دور 1908 عیسوی سے بعد کا دور ہےجویورپ سے واپسی کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس عرصے میں بھی اقبال کی غزل خوب سے خوب تر کا سفر طے کرتی رہی ہے۔ یہ دور بھی دوسرے دور کی غزل کی طرح مضمون اور زبان کے اعتبار سے جدت کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ اس دور کی غزل میں مضامین کے اعتبار سے اقبال کی انفرادیت نمایاں نظر اتی ہے۔ اس دور کی غزلوں میں اقبال اپنے مخصوص طرز محکمہ اور نظریہ حیات کے ساتھ صاف طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ اس دور کی غزل کا اندازہ ملاحظہ ہو۔
پھر باد بہار ائی اقبال غزل خواں ہوں
غنچہ ہے اگر گل ہو، گل ہے تو گلستاں ہو
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے نر آئینہ ہے وہ ائینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاح ائینہ ساز میں
ان اشعار میں ایک نئی اواز اور ایک نئے لہجے کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ بات کہنے میں فارسی اسلوب نمایاں ہیں لیکن اس میں بڑی حد تک ترنم کی خوبی موجود ہے۔ تیسرے دور کی غزل کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس دور میں فکر اقبال کے بعد پہلو نمایاں طور پر شاری میں ظاہر ہونے لگے ۔یہاں اشارہ، پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل، والی غزل کی طرف ہے۔ اب اقبال کا زاویہ نظر ایک حد تک متعین ہو چکا ہے اور شاعر کی فکر کا انفرادی رنگ غزل میں ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ نئی نئی تراکیب مثلا جبین نیاز، نگاح ائینہ ساز، فریب گوش وغیرہ کا استعمال زبان و بیان کی پختگی پر دلالت کرتا ہے۔ انسانی عظمت اس دور کی غزلیات کا اہم موضوع ہے۔
بال جبرائیل کی غزلیات کا تعلق علامہ اقبال کی چوتھی دور کی غزلیات سے ہے ۔بال جبرائیل 1935 میں شائع ہوئی۔ بانگ درا اور بال جبرائیل کی اشاعت میں 11 سال کا فرق ہے۔ اس وقت تک اقبال کی شاعری نہ صرف ارتقائی منازل طے کر چکی تھی بلکہ اقبال کی فکری حیثیت بھی متعین ہو چکی تھی۔ اب اقبال اپنی فکر کے مخصوص نتائج تک پہنچ چکے ہیں ۔
تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میں
اپ دیکھتے ہیں کہ ہر دور میں اقبال کی غزلوں میں موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے تبدیلی پیدا ہوتی گئی۔ اقبال کی غزل کا وہ پہلا دور کہ جب روایتی انداز میں غزل گوئی کا اغاز ہوا ۔بال جبرائیل کے دور سے فکری اور فنی دونوں اعتبار سے کتنا مختلف ہے اب غزل میں عشق و محبت کے بجائے سیاسی، معاشرتی ،بین الاقوامی مسائل اور حیات و کائنات کے گہرے مسائل بیان ہونے لگے ہیں ۔اس چیز نے غزل کے دامن کو وسیع سے وسیع تر کر دیا۔ موضوعات کے اعتبار سے بال جبرائیل کی غزلیات بے حد متنوع شکل اختیار کر گئیں۔ غزل میں چونکہ علامہ کا موضوع جدید اور نیا تھا لہذا اسلوب بھی نیا رنگ اختیار کرتا گیا ۔متنوع اور نئے افکار نے اسلوب میں جدت پیدا کی۔ حضرت علامہ نے نئی نئی تراکیب وضع کی۔ غزل کے روایتی اور متعدد بار استعمال شدہ الفاظ مثلا لیلہ، لالا، شوق، بلبل ،پروانہ اور حسن و عشق کو انہوں نے اپنی اخلاقی کے زور سے طرح طرح کے معنی پہنا کر ان میں نئی روپ پھونک دی۔ غزل کی روایتی زبان کو غزل ہی میں اس طرح استعمال کرنا کہ ایک لفظ مختلف انداز میں زیور معانی سے اراستہ معلوم ہوا ۔اقبال کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
اقبال کی غزل میں نئے انداز کی زبان اور موضوعات کی وسعت کے بعد ان کی دوسری خوبی یہ ہے کہ ان کی غزل کا لہجہ نہایت توانا ہے ۔لہجے کی یہ توانائی اقبال کی غزل میں زبان اور موضوعات کی تبدیلی کا فطری نتیجہ ہے۔ اقبال کی غزل کا لہجہ برعکس اردو کے دوسرے بشتر شعراء کے جن کا لہجہ افسردگی امیز اور مایوسانہ ہے امید فضا ہے۔ لہجے کی اس مثبت تبدیلی سے بھی اردو غزل ایک نئے رنگ سے اشنا ہوئی۔ اقبال کے لہجے میں قوت اور توانائی کا انداز دیکھیے ۔
خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستان کے جہاں گھات میں نہ ہو صیاد
غزلیات اقبال کی تیسری خصوصیات ترنم اور موسیقی ہے۔ اپنی غزلیات میں اقبال نے عموما بحریں اختیار کی ہیں اور ان میں ایسے قافیہ انتخاب کیے ہیں کہ ان کے اشعار میں ترنم اور موسیقی کی خوبی پیدا ہو گئی ہے۔ اور پھر اقبال کا طبعی میلان بھی موسیقی کی طرف تھا۔ ترنم کی یہ خوبی بانگ درا اور بال جبرائیل کی کم و پیش تمام غزلیات میں موجود ہے ۔اس کا درو پست کچھ اس طرح سے ہے کہ سارے کا سارا آہنگ موسیقی میں ڈھلا ہوا معلوم ہوتا ہے ۔مثلا
میرے خاک خون سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صلہ شہید کیا ہے؟ تب وہ تاب جادوانہ
غزنیات اقبال کی چوتھی خوبی ان کے کلام کا سوز و گزار سے لبریز ہونا ہے۔ اقبال کو اسلام اور مسلمان قوم سے سچا عشق تھا ۔اس لگن نے تڑپ کی صورت اختیار کی تو ان کے کلام سے سوز و گزار کے نغمے پھوڑنے شروع ہوئے ۔حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با صفات سے سچا عشق و درد بھی ان کے اشعار سے ظاہر ہوتا ہے۔ شاعر کے ہاں سوز و گزار کے باعث ان کے ہاں اشعار ایک طرح سے درد کے پیکر میں ڈھل گئے ہیں۔
امین راز ہے مردان حر کی درویشی
کہ جبرائیل سے ہے اس کو نسبت خویشی
نگاہ گرم کہ شیروں کے جس سے ہوش اڑ جائیں
نہ اہ سرد کہ ہے گو سفندی و میشی
فارسی تراکیب سازی اور ان کا خوبصورت استعمال اقبال کی غزلیات کی ایسی خوبی ہے جو درحقیقت ان کے کلام شاعر ہونے کا واضح ثبوت ہے ۔ترکیب سازی ایک ایسا فن ہے جس کے لیے زبان اور اسلوب بیان دونوں کی ذہانت لازمی ہے۔ اقبال نے فارسی تراکیب کے استعمال سے نہ صرف کلام کی دلکشی اثر و افرینی اور روانی میں کوئی فرق انے دیا بلکہ اس میں اور اضافہ کیا۔ ان خوبصورت تراکیب کا استعمال محتاج وضاحت نہیں۔ جیسے عالم بے رنگ و بو ،بتان عصر حاضر نگاہ شاعر رنگین نوا محرم جلوہ ہائے لطف خلش وغیرہ۔
خوبصورت تشبیہات اقبال کی شاعری کی جان ہے۔ تشبیہ اور استعارے کو کلام کا زیور کہا گیا ہے۔ اقبال نے اکثر اپنے اشعار کو اس زیور سے اراستہ کیا ہے۔ اقبال کے ہاں تشبیہات کے استعمال میں خاص سلیقہ یہ ہے کہ ان کے ہاں تشبیہات کلام کو خوبصورت بنانے سے زیادہ اس کی تشریح اور توضیح میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ ناقدان اقبال بلا شعبہ اس بات سے متفق ہیں کہ اقبال کے اشعار تشبیہات کا استعمال اپنے اندار انتہائی ندرت تازگی اور حسن رکھتا ہے ۔حسن تشبیہ کی ایک دو مثالیں دیکھیے۔
وہ انکھ کے ہے سرمہ افرنگ سے روشن
پرکار و سخن ساز ہے تمنا ک نہیں ہے
دکھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
دوسرے شعر میں مسلمان کو راک کے ڈھیر سے تشبیہ دی گئی ہے۔ غزلیات اقبال کی ساتویں خصوصیات تغزل کا پایا جانا ہے۔ اقبال کی تمام شاعری جس میں نظمیں بھی شامل ہیں تغزل کی خوبی سے بہرہ وار ہیں، لیکن بال جبرائیل کی غزلیں خصوصی طور پر تغزل میں رچی بسی ہیں۔ تغزل کو بنیادی مفہوم کے اعتبار سے اسے ایک ایسی کیفیت قرار دیا جا سکتا ہے جو محبوب مجازی کے ذکر سے شاعری میں پیدا ہوتی ہے۔ بال جبرائیل کے اشعار اقبال کی غزل میں تغزل کی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں ۔
تجھے یاد کیا نہیں ہے میرے دل کا وہ زمانہ
وہ ادب کہ محبت وہ نگہ کا تازیانہ،؟
اقبال ایک فال فلسفی اور صاحب پیغام شاعر ہے۔ حیات و موت کے مسائل پر ان کی نظر نہایت گہری اور وسیع ہے۔ ان کی غزلوں میں فالسفیانہ افکار کی بات کی جا چکی ہے ۔اقبال کی فالسفیانہ اور شاعرانہ حیثیت نے ان کی غزلوں میں فکر کی گہرائی اور تخیل کی بلندی جیسی خصوصیات پیدا کی ہیں ۔
اقبال کی غزلوں میں درجہ بالا چند خصوصیات کے علاوہ اور بھی بہت سی خوبیاں مثلا روحانی اور سلاست خوشی اور شگفتہ اسلوب بیان اور بلاغت وغیرہ پائی جاتی ہیں۔ اب ائیں ہم ان خصوصیات غزل کو ذہن میں رکھتے ہوئے علامہ اقبال کی پانچ غزلیات کا مطالعہ کرتے ہیں ان میں پہلی چار غزلیات بال جبرائیل سے اور اخری ضرب الکلیم سے لی گئی ہیں۔
ایم اے اردو کی تیاری کے لیے غزلیات اقبال کی خصوصیات
اقبالیات اور فارسی کی تیاری کے لیے
یہ اہم آرٹیکل ہے
خود بھی پڑھے اور دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں ۔
شکریہ
0 Comments
Thanks for comment