https://www.newnewsandstory.online/?m=1 Jangles Shaukat Siddiqui۔ جانگلوس اردو

Jangles Shaukat Siddiqui۔ جانگلوس اردو

 

جانگلوس



جانگلوس ناول
Jangles


جلد دوم:::


جانگلوس کی دوسری جلد کا آغاز رحیم داد کے سفر سے ہی شروع ہوتا ہے۔ وہ چلتا رہتا ہے بھٹکتا  رہتا ہے چلتے چلتے راہ میں ایک تیز رفتار گھوڑا اس سے آ ٹکرایا۔ رحیم داد زخمی ہو جاتا ہے گھڑ سوار کوئلہ ھرکش کا زمیندار اللہ وسایا تھا۔ وہ بہت شرمسار ہوتا ہے اور رحیم داد کو اٹھا کر اپنی حویلی میں لے جاتا ہے۔ اللہ وسایا اور اس کی بیوی جمیلہ رحیم داد کی بڑی دیکھ بھال کرتی ہے وہ خود کو چوہدری نور الہی ظاہر کرتا ہے اور

اپنی داستان بھی چوہدری نور الہی کے حوالے سے سناتا ہے۔


اللہ وسایا اور جمیلہ مزار  عورتوں میں گھلے ملے رہتے ہیں خصوصاً جمیلہ گاؤں بھر کے دکھ سکھ میں پیش پیش رہتی ہے۔ اس کے بارے میں رحیم داد کو معلوم ہوا کہ وہ ایک بڑے ہندو زمیندار کی بیٹی ہے تقسیم کے زمانے میں بلواتیوں کے ہتھے چڑھ گئی تھی۔ پھر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں کھلونا بنی رہی یہاں تک کہ اللہ وسایا اسے خرید لیتا ہے اور پھر شادی کر لیتا ہے اللہ وسایا اس کے باپ کا مزارع رہ چکا تھا ۔جمیلہ نے اپنے باپ کی اور جائیداد اپنے نام کرالی اور اللہ وسایا کے ساتھ رہنے لگی۔ جمیلہ کے گھر والوں نے اس کی واپسی کے لیے بڑے جتن کئے مگر وہ نہ گئی قرب و جوار کے زمیں دار اللہ وسایا اور جمیلہ کی کاشت کاروں سے بے تکلفی کے سخت خلاف تھے ، خصوصاً احسان شاہ نامی ایک زمیندار تو اللہ وسایا کا جانی دشمن تھا اس کی ریشہ دوانیوں کے باعث ایک دن حکومت نے جمیلہ کو تمام جائیداد سے بے دخل کر دیا کیونکہ اب وہ مسلمان تھی اور قانون کی رو سے اپنے ہندو باپ کے ترکے کی وارث نہیں ہو سکتی تھی۔


جمیلہ کی بے دلی کا یہ واقعہ رحیم داد کے لیے مستقبل بنانے اور اللہ وسایا کا احسان چکانے کا اچھا موقع تھا۔ اس نے اپنے کلیم کے کاغذات اللہ وسایا اور جمیلہ کے سامنے رکھ دیئے ان دونوں نے کچھ پس و پیش کیا مگر پھر اس کی پیشکش قبول کر لی ضروری قانونی کارروائیوں کے بعد حویلی اور ڈھائی سو ایکٹر زمین چوہدری نور الہی کے نام ہو گئی۔ رحیم داد اور اللہ وسایا جمیلہ کے ساتھ ہی رہنے لگا۔ 

یہاں سے کہانی ایک نئی صورت اختیار کرتی ہے ایک دن ایسا ہوتا ہے کہ ماکھا نامی ایک شخص کے ذریعے رحیم داد کی ملاقات احسان شاہ سے ہوتی ہے جو اللہ وسایا اور جمیلہ کا سخت دشمن ہے احسان شاہ رحیم داد کو عزت و احترام کے ساتھ حویلی لے گیا۔ وہاں اس نے اللہ وسایا کے خلاف رحیم داد کے کان بھرنا شروع کر دیئے رحیم داد اس کی باتیں سنتارہتا ہے۔ اور پھر واپس آجاتا ہے۔ اچانک ایک اور کردار ر حیم داد سے ملتا ہے۔ یہ اس مولاد اور اس کے بھائی کے قتل کا عینی شاہد ہے جو رحیم داد نے کیا تھا۔ وہ رحیم داد کو بلیک میل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ رحیم داد نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے احسان شاہ سے مل کر   دارا کے

ذریعے اللہ وسایا کو قتل کروا دیتا ہے۔ یہاں کرداروں کے درمیان تصادم کی کیفیت نمایاں انداز میں ملتی ہیں۔

رحیم داد اپنے محسن اللہ وسایا کو اس لیے قتل کرواتا ہے کہ دارا اس کو رحیم داد کے بارے میں سب کچھ بتا چکا ہے۔ اور رحیم داد نہیں چاہتا کہ اس کی شخصیت کے بارے میں کسی اور کو علم ہو کیونکہ  وہ ایک گمنام زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔۔ اللہ وسایا کے قتل پر علاقے میں کرام پڑ جاتا ہے۔  دارا ایک ہزار روپے رحیم داد سے لیکر چلا جاتا ہے ۔یہ اللہ وسایا کے قتل کی قیمت تھی۔ جو تھانیدار اللہ وسایا کے قتل کی تفشیش  کرنے  آتا ہے۔ احسان شاہ اس کا اپنے اونچے تعلقات کی بناء پر تبادلہ کروا دیتا ہے۔ تاکہ رحیم داد اور احسان شاہ اس قتل میں ملوث نہ ہو جائیں۔ نیاہ تھانیدار اس قتل کو سر حد پار رہنے والے جمیلہ کے بھائیوں کے سر منڈود  دیتا ہے اور فائل داخل دفتر کر دیتا ہے۔ ایک دن رحیم داد کو معلوم ہوتا ہے کہ گرداس پور کے بشیر نامی مہاجر نے اس کے خلاف درخواست دائر کر دی ہے کہ چوہدری نور الہی کا کلیم (CLAIM) جعلی ہے۔ رحیم داد 

وکیل کو پانچ ہزار کی ادائیگی کے لیے کوششیں کرتا ہے نا کامی پر احسان شاہ سے رجوع کرتا ہے۔ وہاں اس کی ملاقات بعض اعلیٰ افسروں کے علاوہ ایک خاندانی رئیس سردار مراد خان سے بھی اس کی ملاقات ہوئی کہ مراد خان کے ساتھ اس نے احسان شاہ کی حویلی میں رنگین و دلنشیں شامیں گزاریں ایک رات اسے احسان شاہ کی کوٹ کی بھی سیر کراتا ہے۔ اس کوٹ میں مزارعوں کی عورتوں کو کھیل بنا کر رکھا جاتا ہے۔

 احسان شاہ رحیم داد کی زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے اپنے ایک معتمد محمد نادر شاہ کو اس کے پاس منجر رکھوادیتا ہے۔ نادر خان نہایت جہاں دیدہ اور چاپلوس آدمی ہے۔ اس نے رحیم داد اور جمیلہ دونوں کو شیشے میں اتار لیا۔ جمیلہ نے زمینوں کے سب کا غذات رحیم داد کے حوالے کر دیئے۔ نادر خان مزارعوں سے روایتی سے روایتی استحصالی حربے استعمال کروانا شروع کر دیتا ہے دوسری جانب رحیم داد کے دل میں جمیلہ کی محبت خوشبو بن کر پھیلتی جارہی ہے۔ اور وہ اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کرنا چاہتا۔ احسان شاہ سے اپنی ملاقاتوں کو بھی وہ جمیلہ سے چھپاتا ہے مگر جمیلہ کو سب کچھ معلوم ہو جاتا ہے رحیم داد کے لیے یہ بات حیران کن اور تشویش انگیز ہوتی ہے۔ احسان شاہ کی عدم موجودگی میں شاہانی کے اصرار پر رحیم داد اس کے ہمراہ بھکر چلا جاتا ہے وہاں شاہانی کے عادات واطوار کا جائزہ لیکر اندازہ کرتا ہے کہ وہ کسی قدر ظالم اور درندہ جاگیر دار ہے۔ اس مقام سے واقعات ایک نیارخ اختیار کرتے ہیں۔

رحیم داد شاہانی کے ساتھ مختلف قسم کے جشنوں میں شریک ہوتا ہے۔ شکار کھیلتا ہے وہاں اچانک نادر آجاتا ہے اور اس کو زمین کے بارے میں بتاتا ہے کہ میں نے بغیر روپوں کے سب کام کروا دیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتاتا ہے کہ جمیلہ رحیم داد کے لیے بہت اداس ہے آخر رحیم داد کافی دنوں بعد کو ئلہ حرکش جاتا ہے تمام لوگ اس کو چوہدری نور الہی سمجھ کر اس کی بہت عزت کرتے ہیں۔ یہاں سے حالات میں پھر الجھاؤ کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔


احسان شاہ کا نکالا ہوا نوکر دینا، جس نے اللہ وسایا کے قتل میں حصہ لیا تھا۔ وہ جمیلہ کو آکر سب کچھ بتا دیتا ہے۔ نادر کی زبانی جب رحیم داد کو پتہ چلتا ہے تو وہ ھراساں ہو کر احسان شاہ کے پاس جاتا ہے۔ احسان شاہ مسئلہ حل کرنے کے لیے تاجاں نامی ایک عورت کو اغواء کر الیتا ہے۔ تاجاں جمیلہ کے ایک مزارع کی بیوہ بیٹی ہے۔ وہ اس کو اپنی سگی بہن کی مانند چاہتی ہے اور اس کی شادی کے انتظامات میں مصروف ہوتی ہے۔ اب تا جاں کو اغواء کر لیا جاتا ہے۔


 جمیلہ کو دہائیاں دینے کے لیے جاگیر دار احسان شاہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا پڑا احسان شاہ نے تاجاں کی آزادی کے لیے رحیم دادسے نکاح کی شرط عائد کر دی۔ جمیلہ تاجاں کی واپسی کا عزم لے کر آئی تھی وہ یہ اکراہ شرط منظور کر لیتی ہے۔ اسی وقت مسجد کے مولوی صاحب طلب کئے گئے نکاح اور نکاح نامے کے تکمیل کے کچھ دیر بعد بہکتے قدموں کے ساتھ رحیم داد کمرے میں داخل ہوا۔ وہاں جمیلہ تھی اس کی منزل مراد اس کی آرزوں کا حاصل مگر جمیلہ کے لہجے

میں تو تلواروں کی سی کاٹ تھی۔

 Please share your friend 
Thanks......... شکریہ 

Post a Comment

0 Comments