https://www.newnewsandstory.online/?m=1 #Nazir Akbar abadi Knowledge

#Nazir Akbar abadi Knowledge


نظیر اکبر آبادی ڈاکٹر رام بابو سکسینہ کی نظر میں




نظیر اکبر آبادی
نظیر اکبر آبادی 



 نظیر اکبر آبادی بعہد محمد شاہ ثانی تقریبا اس زمانے میں پیدا ہوئے جب نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا۔ اس وجہ سے وہ میرو سودا اور دیگر قدیم شعرائے دہلی کے محاصر کہے جا سکتے تھے مگر چونکہ عمر زیادہ پائی تھی اس وجہ سے انشاء، جرات اور ناسخ تک کا زمانہ دیکھا۔ یہ ان کی خصوصیت ہے کہ  بہ سبب اپنی طویل عمر کے مختلف عمر کے شعراء ان کی نظر سے گزرے ۔ان کا طرز عمل بھی ایک عجیب رنگ رکھتا تھا۔ قدیم شعراء میں ان کا شمار اس لیے نہیں ہو سکتا کہ ان کا اکثر کلام زمانہ حال کا معلوم ہوتا ہے ۔متوسطین شعرائے دہلی میں بھی یہ نہیں لیے جا سکتے اس وجہ سے ان کے کلام میں بہت ازاد روی سے لکھنو کا قدیم طرز تو ان میں چھو نہیں کیا گیا ہے کیونکہ ان میں بنوٹ اور رنگینی جو طرز لکھنو کی خاص پہچان ہے مطلق نہیں پائی جاتی ۔اسی طرح دور جدید کے شعرائے دہلی مثلا غالب ،ذوق اور مومن وغیرہ سے بھی یہ بالکل علیحدہ ہیں اسی وجہ سے یہ کہ ان کے یہاں سادگی ہے اور فارسی ترکیبوں کا ان کو مثل ان کے مطلق شوق نہیں ہیں۔

  نظیر کا نام ولی محمد اور ان کے باپ کا نام محمد فاروق تھا ۔نظیر کی ولادت شہر دہلی میں ہوئی چونکہ اپنے باپ کی 12 اولادوں میں صرف یہی بچے تھے لہذا باپ ان سے بہت محبت کرتے تھے ۔

  احمد شاہ ابدالی کے حملے کے وقت نظیر اپنی ماں اور نانی کو لے کر آگرا چلے گئے یہاں محلہ تاج گنج میں جو تاج محل کے قریب واقع ہے سکونت پذیر  ہو گئے ۔ان کی شادی ایک عورت مسماتہ تہوو بیگم دختر محمد رحمان سے ہوئی تھی۔ جن سے ایک لڑکا خلیفہ گلزار علی اور ایک لڑکی امام بیگم تھیں ۔نظیر فارسی کی معمولی قابلیت کے علاوہ تھوڑی بہت عربی بھی جانتے تھے اور فن خشنویسی سے بھی واقف تھے ۔جس کا اس زمانے میں بہت چرچہ تھا۔ نظیر کی طبیعت میں آسودگی اور قناعت اس درجہ تھی کہ انہوں نے حسب الطلب نواب سعادت علی خان لکھنو آنے سے اور اسی طرح بھرت پور کے جانے سے بھی انکار کر دیا ۔اوائل عمر میں متھرا گئے تھے جہاں کسی جگہ معلمی کی نوکری کر لی تھی مگر تھوڑے ہی دنوں بعد آگرا واپس اگئے اور یہاں لالا بلاس رام کے لڑکے کو بمشاہرہ 17 روپے ماہوار پڑھایا کرتے تھے۔ اخری عمر میں مرض فالج میں  مبتلا ہو گئے تھے اور اسی مرض میں بہت کبر سنی کی حالت میں 14 اگست 1830 عیسوی کو انتقال کیا جیسا کہ ان کے ایک شاگرد کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے لائل صاحب 1832ء ان کا سن وفات بتاتے ہیں مگر کوئی سن نہیں دیتے ہیں۔

   نظیر بہت صحت پسند ادمی تھے اور مختلف قسم کے لوگوں کی سوسائٹی سے ملتے جلتے تھے اسی وجہ سے ان کا تجربہ بہت وسیع تھا جس سے انہوں نے اپنے اشعار میں بہت بڑا فائدہ اٹھایا ۔ان کو گانے سے ،کسرت سے اور تماشے سے بہت شوق تھا۔ نہایت حلیم الطبع منکسر المزاج اور اسی کے ساتھ نہایت ظریف اور با مذاق واقع ہوئے تھے کسی طرح کا تعصب اور خود بینی ان کے مزاج میں نہ تھی۔ ہندو مسلمان سب ان کو مانتے اور سب ان سے محبت رکھتے تھے ۔جوانی میں البتہ وہ  بہت رنگین مزاج تھے۔ عشق و عاشقی کا بھی ذوق رکھتے تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ جس قدر کلام میں ان کی فواحش ہے وہ اس دور کی یادگار ہے۔ مشہور ہے کہ ایک رنڈی جس کا نام موتی تھا ان سے تعلق تھا وہ آزادانہ زندگی شاید اسی زمانے میں بسر کرتے  ہوں گے۔ اس زندگی کی  جیتی جاگتی تصویر ان کے کلام میں موجود ہیں وہ یقینا اسی عہد کی یادگار ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو فواحش کو متشنی کر کے ان میں بے مثل مرقع  اس سوسائٹی کے ہیں جس میں وہ اس وقت ملتے جلتے تھے مگر بڑھاپے میں یہ سب باتیں بدل گئی تھیں گزشتہ گناہوں سے توبہ کر کے وہ ایک صوفی صائی ہو گئے تھے اس زمانے میں ان کا کلام نہایت قابل قدر اور پر اثر ہے۔ بہت پرگو شاعر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ دو لاکھ سے زیادہ شعر کہے تھے مگر وہ سب کلام تلف ہو گیا۔بالفصل جس قدر موجود ہے اس کی تعداد تقریبا چھ ہزار شعر سے زیادہ نہ ہوگی اور یہ لالا بلاس رام کی کاپیوں سے نقل کر لیا گیا ہے کیونکہ خود ان کو اپنے کلام کے محفوظ رکھنے کی مطلق پروانہ تھی۔

Nazir Akbarabadi  

نظیر بحیثیت واعظ و ناصح


اگر نظیر کے کلام میں ان کے معمولی اشعار ڈالے جائیں تو ان کا شمار بڑے بڑے فالسفیوں اور ناصح شعرا میں ہو سکتا ہے ان کے اشعار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ولی کامل دنیا و مافیہا کی بے ثباتی اور بے حقیقی پر زور لیکچر دے رہا ہے اور ہم کو ایک دوسری زندگی کی تعلیم دیتا ہے جو زوائل اور مصائب سے بالکل پاک ہے ۔ان کی دس 11 ایسی دلچسپ اور موثر نظمیں ہیں جن کے اکثر اشعار فقیر اور سادھو لوگ خوش الحانی سے پڑھ پڑھ کر ہمارے دلوں کو بےتاب کرتے ہیں۔ اس کی نظموں میں وہ ،دنیا ہیچ ست و کار دنیا ہمہ ہیچ، کے پوری طرح سے قائل ہیں۔ وہ خیر  خیرات کے بہت معرف ہیں اور دنیا کو مزرع آخرت سمجھتے ہیں۔

 ان کی تمثیلیں بہت اعلی اور دلکش ہوتی ہیں ان کی نظم ،موت پر، اور ،بنجارہ نامہ، مفرور اور سرکش لوگوں کے لیے ایک تازیانہ عبرت ہے اور ان کو آگاہ کرتا ہے کہ دنیا دار فانی ہے۔ اس کو چھوڑو اور عاقبت کی فکر کرو۔ نظیر کا مقابلہ اس معنی میں شیخ سعدی سے خوب ہو سکتا ہے کیونکہ دونوں کا کلام صاف اور سلیس اور دونوں میں تصوف کا رنگ ہے۔ دونوں عاشقانہ رنگ کے استاد اور دونوں ہی اپنی جگہ پر اور اپنے اپنے رنگ میں نصیحت گو بھی ہیں۔ نظیر چونکہ صوفی مشرب ادمی تھے لہذا ان کو تمام مذہبی جھگڑوں اور مناقشوں اور نیز مذہبی پابندیوں سے بالکل بے تکلفی تھی ان کی صوفیانہ نظمیں بہت ہی اعلی درجے کی ہیں اور اس حیثیت سے ان کا مقابلہ کسی دوسری زبان کے بہتر سے بہتر شاعر سے ہو سکتا ہے۔نظیر کی وسیع النظری، آزاد خیالی، ہمہ گیری اور بے تعصبی ایسی خصوصیات ہیں جو ان کے کلام کو تمام دوسرے شعراء کے کلام سے ممیز اور ممتاز کرتی ہیں۔


نظیر بحیثیت حقیقی ہندوستانی شاعر کے


نظیر کی ہمدردی اور محبت بنی نوع انسان کے ساتھ محدود نہیں ہے بلکہ وہ حیوانات اور بے جان اشیاء سے بھی ایک خاص انس اور محبت رکھتے تھے ان کی نظم جانوروں کے متعلق اس قدر دلچسپ ہیں کہ پڑھنے والوں کو ان کی عام واقفیت اور ہمہ دانی پر تعجب ہوتا ہے اسی طرح چھوٹے بچے ان کی نظمیں مثلا کبوتری بازی پتنگ بازی تربوز۔

 نظیر زندگی کے تمام لطفوں اور خطوں سے خوب بہرہ اندوز تھے ۔وہ ہندو مسلم کے تہواروں میں شریک ہوتے اور ان کے میلے ٹھیلے کی خوب سیریں کرتے تھے انہیں سیر تماشوں میں ان کا پائے تہذیب کبھی پھسل جاتا ہے اور بے تکان وہ اڑنے لگتے ہیں مگر یہ ضرور کہ انہی چیزوں سے وہ مفید مطلب اور اخلاقی نتائج بھی نکالتے ہیں اور بقول شیکسپیئر پتھر سے وعظ سنتے ہیں اور ہر چیز میں اچھائی دیکھتے ہیں۔ یہ ان کی خصوصیات ہے کہ انہوں نے دنیا کے مختلف اشغال اور کھیل تماشوں کا حال اس مزے سے اور ایسے جوش مسرت کے ساتھ لکھا ہے کہ بچوں کی طرح وہ خود ان سب میں شریک ہیں۔

 

 کیا وقت تھا وہ جب تھے ہم دودھ کے چٹورے

  کیا دن تھے وہ بھی یارو ہم تھے بھولے بھالے

 ہولی، دیوالی ،بسنت عید وغیرہ پڑھ کر باغ باغ ہوتے ہیں 

Nazir Akbarabadi

پھر معمولی  معمولی چیزوں کو ایسی دلچسپ تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ بغیر تعریف کیے رہا نہیں جاتا۔ ان کی  معلومات غیر محدود ،ان کا خزانہ لغات، غیرمختتم اور ان کی صفائی بیان دلکش ہے ان کے مزاج میں چونکہ مذہبی تعصب اور نارو اداری نہ تھی بلکہ کڑ پن کو وہ نہایت نفرت اور  حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ ہندوؤں سے بہت غلط ملط رکھتے تھے اور ان کے رسم و رواج ان کی زبان ان کے خیالات ان کے تہواروں اور ان کے معتقدات  تک کو ایسے دلچسپ طریقے سے اور اس قدر صحت کے ساتھ بیان کر کر گئے ہیں کہ ہمیں ان کی ہمہ دانی پر تعجب معلوم ہوتا ہے۔ وہ دوسری مذہب کی چیزوں کے ساتھ کبھی تمسخر نہیں کرتے اور نہ ان کو حقارت کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اسی سے ان کے کلام میں ایک مقامی رنگ ہے جو اکثر ہمارے شعرائے اردو میں کمیاب بلکہ نایاب ہے ۔البتہ کہیں کہیں سودا اور انشاء کے کلام میں اس کا پتہ چلتا ہے ۔نظیر ایک خالص ہندوستانی شاعر تھے کیونکہ ان کے  خیالات ان کی زبان ان کے مضامین سب مقامی رنگ میں ڈوبے ہوئے تھے۔


 نظیر کا زبان کے ساتھ تعلق 

Nazir Akbarabadi

ان کی خدمات زبان کے ساتھ بہت قابل قدر ہیں ۔انہوں نے ایسے الفاظ سے بہت فائدہ اٹھایا جن کو شعراء ادنی اور بازاری سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ ایسے الفاظ میں مروجہ مضامین شعر سے میل نہیں کھاتے۔ اس وجہ سے عام شعراء ان کو معمولی اور صوقیانہ سمجھ کر ترک کرتے ہیں اور شعر میں ان کو دخل کرنا خلاف شان سمجھتے تھے ۔نظیر نے کمال کیا کہ ایسے ہی الفاظ کو اپنے اشعار میں جگہ دی اور دنیا کو دکھلا دیا کہ ان میں وہ خوبیاں چھپی ہوئی ہیں جن کو ظاہر  بین نگاہیں نہیں دیکھ سکتیں ۔البتہ اس میں بھی شک نہیں کہ اس قسم کے الفاظ اس عزت کے مستحق نہیں جو ان کو حاصل ہوئی مگر بہت سی چیزیں باوجود مخالفت  اور احتیاط کے بھی ادبی دنیا میں داخل ہو گئیں ۔نظیر کی مستعملہ  لغات تین قسموں پر تقسیم کی جا سکتی ہیں۔


 ایسے الفاظ جو ان کے ابتدائی رنگ کے کلام میں بکثریت پائے جاتے ہیں اور اب بالکل خلاف تہذیب سمجھے جاتے 

 ہیں

 

 ایسے الفاظ جو معمولا اردو شاری کے ماہر بساط ہیں

 

 وہ جواہر ریزے جن سے حسن شعر بڑھ جاتا ہے اور خزانہ زبان مالا مال ہو جاتا ہے۔

 

 نظیر پر بحیثیت شاعرانہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ پڑھے لکھے نہیں تھے بلکہ معمولی غلط گو شاعر تھے اور اپنے اشعار سے بازاری لوگوں کا دل خوش کیا کرتے تھے ان کا کلام غیر مہذب بلکہ فحش درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔انہوں نے اپنے عامیانہ اور سوقیانہ الفاظ کی آمیزش سے ہماری زبان کو غارت کر دیا ہے۔مگر ہم مختصر طور پر اتنا کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ جو چیز نظیر کی خامی اور کمزوری سمجھی جاتی ہے وہی ہماری رائے میں فی الحقیقت ان کی بڑی خصوصیات اور صفت ہیں مثلا وہ ایسی معمولی چیزیں اور مناظر جن کو عام لوگ پسند نہیں کرتے تھے دیکھنے کے بہت شائق تھے۔ ان کے بیان کے لیے ان کو عام فہم اور سیدھے سادے الفاظ کی ضرورت تھی  لہذا ان کا بڑا کمال یہی ہے کہ وہ عوام الناس کے خیالات اور جذبات اور ان کی بول چال کو خود انہی کی زبان سے ظاہر کرتے تھے۔ یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو فالسفیانہ یا دور سے کھڑے ہو کر بطور تماشے کے دیکھنا نہیں چاہتے نہ ان میں کوئی نقص یا اعتراض نکالنا چاہتے ہیں بلکہ وہ ان کا سچا فوٹو من و عن کھینچ دیتے ہیں۔ وہ ایسے مناظروں اور مجموعوں کو حکیمانہ یا یارحانہ نظر سے نہیں دیکھتے اس وجہ سے ان کا بیان ان چیزوں کا نہایت دلچسپ اور نیچرل ہوتا ہے۔ حالی نے شاید اسی کثرت الفاظ کے خیال سے نظیر کو میر انیس پر ترجیح دی ہے۔

  نظیر ایسے موقعوں پر کوئی نکتہ چینی نہیں  کرنا چاہتے بلکہ خود ان میں شریک ہو کر ان سے لطف اٹھانا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ بھی خصوصیات ہیں کہ جس طرح کسی کی ہجو نہیں کہی اسی طرح کسی کی تعریف میں کوئی قصیدہ بھی نہیں لکھا۔ یہ دونوں باتیں ہمارے نزدیک ان کے کلام میں بہت بڑا جوہر ہے اور ان لغرشوں کی تلافی کر دیتی ہیں جو استدائے عمر میں ان سے سرزد ہوئی ہوں گی۔

Nazir Akbarabadi

نظیر جدید رنگ کے پیشرو


یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ زمانہ موجود کی فطری اور قومی شاعری جس کی ابتدا مولانا ازاد اور حالی وغیرہ  سے کی جاتی ہے اس کے پیشرو بلکہ موجد نظیر اکبر آبادی کہے جا سکتے ہیں جس طرح انیس اور دبیر نے فاضلانہ قابلیت کے ساتھ مناظر جنگ اور قدرت مناظر کے بے مثل مرقعے اپنے اشعار میں دکھائے ہیں۔ اس طرح نظیرنے بھی معمولی معمولی چیزوں کی ہو بہو تصویریں جن کی گنجائش شعری میں مطلق نہ تھی سیدھے سادھے موثر الفاظ میں کھینچ دی ہے ۔جس سے ان کا کلام عوام الناس میں بہت مقبول ہیں۔ اس مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فارسی کے دقیق لفظ اور ترکیبیں اور پچیدہ تشبیہ اور استعارے ان کے کلام میں کہیں نہیں۔ ان کی تحریر سادہ اور بے تکلف اور ان کا بیان صاف اور اصلیت کے مطابق ہوتا ہے مگر مجرو نیچر کی پرتش سے وہ ناواقف ہیں۔ جنگلوں اور پہاڑی چوٹیوں کا حال ان کے یہاں نہیں ہے۔ قدرتی مناظر کا فوٹو وہ صرف اسی حالت میں کھینچتے ہیں جب ان مناظر کا تعلق انسان سے ہوتا ہے ۔ان کی نظمیں برخلاف معمولی اردو نظموں کے مسلسل ہوتی ہیں۔ البتہ ان کے کلام میں وہ وسیع النظری اور گہرائی نہیں ہے جو متاخرین شعرائے دہلی کے کلام میں ہے غرضیکہ اپنے سادہ بیان سے اپنے بے تکلف مگر پرزور الفاظ سے اپنے عام دلچسپی کے مضامین سے ایسے دلکش اشعار سے جن میں تضع اور یک رنگی کا نام نہیں  نظیر اکبر ابادی ایک ایسے طرز کی بنا ڈال گئے جو اگے چل کر ہماری زبان اور ادب کی ترقی بلکہ ہمارے قومی احساس کے از سر نو زندگی کا بہت بڑا باعث ہوا۔


 نظیر کا ظریفانہ رنگ


نظیر کا ظریفانہ رنگ خاص ہے اور عجیب قسم کا ہے اسی رنگ کی ترقی کا باعث ان کا عام لوگوں کے ساتھ میل جول اور ربط ضبط ہے چونکہ وہ عام لوگوں سے بے تکلفانہ اور مساویانہ ملتے تھے اور ان کے شادی اور غم میں برابر کے شریک رہتے تھے لہذا ان کو فطرت انسانی کے مطالعہ  کا خوب موقع ملتا تھا اور معلومات کے ساتھ ان کی خوش طبعی اور ظرفت میں اضافہ رہتا تھا وہ افلاس اور مصیبت کی تکلیفوں کو نہایت تحمل اور خندہ پیشانی سے برداشت کرتے اور لمحات حوادث کو اپنے مذاق میں اڑا دیتے تھے ان کی ظرافت نہ تکلیف ہے اور نہ اس میں شہد پن ہوتا ہے نظیر اور انشاء دونوں اپنے اپنے رنگ میں ظرافت کے استاد تھے۔ مگر ان دونوں کی ظرافتوں میں فرق ہے انشاء کی ظرافت ایک ایسے درباری کی ظرافت ہے جو پر مذاق باتوں سے اپنے مالک کو خوش کرنا چاہتا ہے اور اس کوشش میں وہ بھانڈوں کی طرح اپنی اور دوسرے کی بےعزتی کی بھی مطلق پرواہ نہیں کرتا۔

 ہر چیز کو اپنے آقا کی خوشنودی مزاج پر قربان کر دیتا ہے۔ نظیر ایک ازاد ظریف ہے جو اپنی با مذاق باتوں سے کسی کو رنج دینا نہیں چاہتا اور نہ کسی کی عزت پر حملہ کرتا ہے سب کو خوش رکھتا ہے ۔باوجود اس کے کہ انشاء اور نظیر میں کئی باتوں پر مماثلت بھی ہے۔ دونوں شاعروں نے مشکل مشکل ردیف اور قافیہ میں  طبع آزمائی کی ہے اور بعض غزلیں ہم طرح بھی کہی ہیں۔ دونوں عربی مصرعے اشعار میں کامیابی کے ساتھ موزوں کرتے ہیں۔ دونوں کے کلام میں مقامی رنگ یعنی ہندی الفاظ اور ہندی رسم و رواج وغیرہ کثرت سے ہے ۔دونوں نے مختلف زبانوں میں شعر کہے ہیں دونوں کے کلام تصوف کا سنہرا رنگ جلوہ گر ہے۔ زبان کے بارے میں دونوں آزاد ہیں مگر فارسی اور عربی الفاظ صحت کے ساتھ الفاظ کرنے میں انشاء مشاق ہے اور بمقابلہ نظیر کے ان کے ہاں متروکات کم ہے اور ان کی ظرافت کا رنگ بہت گہرا ہے۔

Nazir Akbar abadi

  نظیر بحیثیت مصور کے 

  

نظیر کو فن موسیقی سے بڑا شوق تھا اس لیے ان کو انتخاب الفاظ میں اس فن سے بہت مدد ملی وہ ایک آرٹسٹ اور بہت بڑے مرقع نگار ہیں ان کو اپنے اشعار کے واسطے انتخاب الفاظ میں وہی انہماک تھا جو انگریزی شاعر ٹینین کو تھا۔ وہ صفت تجنیس کے بہت شائق ہیں اور اکثر ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کی آواز سے اظہار مطلب ہو جاتا ہے۔

 مثلا لڑائی بھڑائی کے موقع پر وہ ثقیل حروف لاتے ہیں شادی اور مسرت کی محفلوں  اور تہواروں کے بیان میں انہی کے مناسب سریلے اور دلکش الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ دو راز کار تشبیہات ان کے کلام میں کم ہے اور دیگر  صنائع و بدائع بھی نہات اعتدال سے ہیں اور آورد وغیرہ سے ان کا کلام پاک ہے



نظیر اکبر آبادی ڈاکٹر رام بابو سکسینہ کی نظر میں اردو کا ایک اہم سوال ہے خود بھی پڑھے اور دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں ۔

شکریہ 

Post a Comment

0 Comments