اقبال کی شاعری
Poetry of Iqbal |
علامہ اقبال کی شاعری ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری کے بارے میں مختلف ماہرین اس طرح لکھتے ہیں۔
مجنوں گورکھ پوری لکھتے ہیں :
اگر ہم ان کے فلسفے اور پیغام کو نظر انداز کر دیں یا کسی ایسے زمانے کا تصور کر سکیں جب کہ ان کے افکار و میلانات کا کوئی عنصر بھی زندہ نہ رہے گا تو اس حالت میں بھی ماننا پڑے گا کہ محض مناع اور شاعر کی حیثیت سے اقبال دنیا کے بڑے بڑے شاعروں کے ساتھ جگہ پا سکتے ہیں۔ افکار و جذبات سے برطرف ہو کر اقبال نے اردو شاعری میں جو نئے اسالیب و صور تراشے ہیں اور پرانے اسلوب کو نئے انداز سے استعمال کر کے جو نئے آہنگ پیدا کیے ہیں وہ ہماری شاعری کی زبان میں یقینا اختراعات کا حکم رکھتے ہیں اور مستقل اضافے ہیں۔
اقبال کی شاعری
اقبال نے شاعری میں قدیم طرز کا اتباع کیا ہے اور ان کے زمانے ہی میں انگریزی کی تقلید میں جو بلینک ورس کا رواج ہو چلا تھا۔ اسے انہوں نے بنظر استحسان نہیں دیکھا بلکہ اس کے مقبول نہ ہونے کی بھی پیش گوئی کر دی۔ وہ ایک خط میں ڈاکٹر عباس علی خان لمضہہ کو لکھتے ہیں:
سینے غزل اور رباعی کے لیے قافیہ کی شرط لازمی ہے۔ اگر ردیف بھی بڑھا دی جائے تو سخن میں اور بھی لطف بڑھ جاتا ہے۔ البتہ نظم ردیف کی محتاج نہیں قافیہ ہونا چاہیے اب کچھ عرصے سے بلا ردیف و قافیہ نظمیں لکھی جاتی ہیں۔ یہ انگریزی نظموں کی تقلید ہے جس کا نام انگریزی میں بلینک ورس ہے۔ جسے نثر مرجز کہنا چاہیے۔ اگرچہ پبلک مذاق ایسا ہو چلا ہے مگر میرے خیال میں یہ روش آئند مقبول نہ ہوگی۔ نظموں کے لیے اولا سبجیکٹ اور مضامین تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ نیچرل مضامین سبجیکٹ ہی کے اعلی انتخاب سے کچھ لطف دیتے ہیں ۔
میں فقط فرسودہ مضامین کی حد تک جدید اور قدیم کی بحث کو مانتا ہوں ۔نظر کے اصناف کی تقسیم جو قدیم سے ہمیشہ رہے گی اور انسانی جذبات ماحول کے تابث رہیں گے۔ اگر ہم نے پابندی عروض کی خلاف ورزی کی تو شاعری کا قلعہ ہی منہدم ہو جائے گا اور اس نقطہ خیال سے یہ کہنا پڑے گا اور یہ کہنا درست ہے کہ موجودہ شعراء کا کام تعمیری ہونا چاہیے نہ کہ تخریبی۔
علامہ نے شاعری کو اپنے اعلی افکار کے اظہار کا ذریعہ بنایا ۔اسی لیے رمز و ایما کے ذریعے دقیق صوفیانہ اور فالسفیانہ خیالات کو ذہن نشین کرانے میں بہت حد تک کامیاب رہے ہیں ۔ان کی شاعری میں رمزیت غالب ہے اور اس میں وہ بہت حد تک مولانا روم کا اتباع کرتے ہیں۔ رمزیت کے علاوہ علامہ کے اشعار جذبات سے لبریز ہیں۔ اسی لیے ان میں نشاط و ولولہ کی کثرت ہے اور سارے کلام میں راجائیت کا ایک سلسلہ چلا گیا ہے ۔
خیالات اور جذبات کا بانکپن اور عمدگی کے ساتھ اقبال نے ہیت کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے ۔وہ الفاظ کے انتخاب میں بے حد محتاط نظر اتے ہیں۔ اگر ہم بانگ درا کے اخر میں ظریفانہ کلام کو نظر انداز کر دیں جہاں چند عامی اور مبتزل الفاظ بے ساختگی کے ساتھ ادا ہو گئے ہیں تو یہ دعوی حقیقت پر مبنی ہوگا کہ علامہ کا دامن ابتدال سے پاک ہے۔ اردو اور فارسی اشعار میں ایک لفظ بھی عامی یا غیر فصیح نہیں ملتا ۔علامہ کے کلام میں تشبیہات و استعارات کی بھرمار ہے لیکن ان میں سے ایک بھی دور ازکار اور غیر محسوس نہیں ہے اور نہ کوئی ایک لفظ جدت اور تازگی سے خالی ہے ۔علامہ کے طرز استدلال کے متعلق پروفیسر رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں۔
اپنے شعر و شاعری میں الفاظ و ترکیبیں تو ضرور شاعرانہ رکھتے ہیں لیکن بحث و استدلال ایک فاضل حکیم کے راز سے کرتے ہیں۔
علامہ اقبال کے طرز استدلال کو خالص اسلامی کہنا بہت حد تک بجا ہوگا۔ وہ اپنے افکار کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر رکھتے ہیں۔ اس لیے قرانی ایات اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنے دعؤں کی دلیلیں فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے نثر اور نظم دونوں میں بار بار قران و حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ بالخصوص نظم میں ایات ربانی کو نہایت حسن و خوبی کے ساتھ نظم کیا ہے۔ جہاں وہ یہ کہتے ہیں کہ حقیقی بادشاہ خداوند تعالی ہے ۔فرماتے ہیں۔
اہ سے مرد مسلمان تجھے کیا یاد نہیں
صرف لا تدع مع اللہ الھا اخر
یا جاوید نامہ میں روسی خیالات اور سلام میں یگا نگت
کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
ہمچو ما اسلامیاں اندر جہاں
قیصریت را شکتی استخواں
ملوکیت کے مصائب کا ذکر اس طرح کرتے ہیں
آ بتاؤں تجھ کو رمز آ یہ ان الملوک
سلطنت اقوام عالم کی ہے اک جادوگری
اس شعر میں ایات ان الملوک اذ ادخلو اقریتہ افسدوھا کی طرف اشارہ ہے۔
نثر میں بھی قرانی ایات کا جا بجا حوالہ دیتے ہیں۔ ان کے خطبات میں بے شمار آیتیں بطور سند ملتی ہیں۔ وہ مسئلہ جبر و قدر سے جب بحث کرتے ہیں تو انسان کو خود مختار و مقدور بتلاتے ہیں۔ اور دلیل میں حیات
فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں
حقیقی خالق بے شک اللہ تعالی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی خالق ہو سکتے ہے جیسا کہ آیت احسن الخالقین سے ظاہر ہے کہ خدائے پاک تمام دوسرے خالقوں سے احسن ہے۔
یا علی گڑھ کی تقریر میں مرد و عورت کی مساوات مطلق جس کے اصول کے لیے اہل یورپ کوشاں ہیں اس کی تردید میں الرجال قوامون علی النساءَ پیش کی ہے۔ اسی طرح وہ حدیث کے ٹکڑے بلا تکلف اشعار میں استعمال کرتے ہیں ۔مثلا من رانی فقداری اللہ کی طرف کس عمدگی سے اس شعر میں اشارہ کیا ہے
دو چارم کن بہ صبح من رانی
شجم راتاب مر اور دہ تست
اسی طرح وہ عقیدہ توحید میں صفات باری تعالی کی اہمیںت ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ذات کا ادراک ممکن نہیں البتہ صفات کا ادراک ممکن ہے اور بطور دلیل یہ حدیث نقل کرتے ہیں
حافظ شیرازی کی تصنیف پر نوٹ لکھیں یہاں کلک کریں
مخلوق کے متعلق غور کرو۔ اور خالق کی بابت غور و فکر نہ کرو
علامہ اس بات کے دعویدار ہیں کہ حقیقی بادشاہت اللہ تعالی کی ہے اور زمین کا مالک بھی وہی ہے۔ اس کی
سند یہ دیتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت کے وقت یا اس سے قبل اپنی جانشینی کے متعلق مسلمانوں کو کوئی ہدایت نہیں فرمائی اور جب طفیل بن عامر ایک دن پیغمبر خدا کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا ۔
اگر میں اسلام قبول کر لوں تو مجھے کیا مرتبہ یا منصب دیا جائے گا؟ کیا اپ اپنے بعد عرب کی حکومت کی باغ میرے ہاتھ میں دے دیں گے۔
رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔ حکومت کی باغ تو خود میرے ہاتھ میں نہیں، تیرے ہاتھ میں کیا دوں گا؟
یا ایک اور موقع پر علامہ اپنے اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ اسلام میں قانون سازی کی بنیاد تمام تر اتفاق و اتحاد اراء جمہوریت کے بنیادی اصول پر قائم ہے تو اس کا ثبوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے دیتے ہیں
کثرت ملت اسلامیہ جس امر کو مستحسن قرار دے وہ خدائے علیم و حکیم کی نظر میں بھی مستحسن ہو جاتا ہے۔
علامہ صحابہ کے اقوال سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ حضرت ابوبکر کا انتخاب بحیثیت خلیفہ کے بے قاعدگی کے ساتھ عمل میں ایا تو وہ حضرت عمر کا یہ قول نقل کرتے ہیں ۔
حضرت ابوبکر کا فوری انتخاب اگرچہ ضروریات وقت اور نتائج کے لحاظ سے نہایت مناسب اور بر محل ہوا۔ تاہم انتخاب کا یہ طریق مذہب اسلام میں اصول مسلمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
اقبال حکماء، اکابر، صوفیائے اسلام اور سلف صالحین کی زریں آراء کو بھی بطور سند پیش کرتے ہیں۔ وہ ماوری کے امامت کے اوصاف دہراتے ہیں اور ایک وقت میں دو مختلف علاقوں میں دو امام کے جواز میں ابن خلدون کی رائے نقل کرتے ہیں ۔صرف مسلم مفکرین کا کیا ذکر ہے ۔علامہ غیر مسلم اور مغربی مفکرین سے استفادہ کرنے اور ان کے خیالات کو بطور دلیل پیش کرنے میں بھی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ بشرطیکہ کہ ان کے نظریات غیر اسلامی نہ ہوں ۔مثلا وہ ملت کی ہیت ترکیتی کا انحصار مذہب پر بتلاتے ہیں اور انہوں نے اگسٹس قول بطور سند پیش کیا ہے ۔
چونکہ مذہب ہماری کل ہستی پر حاوی ہے لہذا اس کی تاریخ ہماری نشوونما کی پوری تاریخ کا خلاصہ ہونی چاہیے۔
لیکن اقبال غیر مسلم مفکرین پر کڑی نظر رکھتے ہیں اور جہاں بھی کسی بڑے سے بڑے مفکر نے خلاف فطرت یا خلاف اسلام کوئی نظریہ پیش کیا علامہ دلائل و بر رہین
سے مسلح ہو کر اس کی تردید پر امادہ نظر اتے ہیں۔ مثلا وہ افلاطون کے ان خیالات کو جن کی بنا پر زندگی پر موت کو ترجیح دی جاتی ہے بے حد ناپسند کرتے ہیں۔
اسی طرح ارسطو بھی ان کی تنقید سے نہ بچ سکا۔ اس کو وہ معلم اول کہتے ہیں ،لیکن اس کے اس خیال کی تائید کرنے پر امادہ نہیں کہ غلامی تمدن انسانی کے لیے ایک جز ہے۔ میکاولی اور لوتھر کو دین اور سیاست کی علیدگی کے باعث ہدف اعتراض بنایا ۔بعض محترم مسلمانوں کو جب اسلامی تعلیمات کے خلاف تبلیغ و تلقین کرتے دیکھتے ہیں تو ان کو بھی نہیں بخشتے ۔مثلا اسرار خودی میں حافظ شیرازی کے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا تھا۔
اقبال کی شاعری پر ایک مفصل نوٹ خود بھی پڑھے اور دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں ۔
اردو کے لیے ایک اہم سوال خاص طور پر ایم اے اردو
بی ایس اردو ۔۔۔۔۔
شکریہ
0 Comments
Thanks for comment